سوچتا رہتا ہوں ایسی باتیں اب شام و سحر
آنکھ کھولوں تو پرانے دوست آ جائیں نظر
نہ کسی کا فون آتا ہے نہ کوئی بات چیت
میرے ساتھ ہی ایسا ہے یا باقی بھی زیر و زبر
جانچتا رہتا ہوں مَیں بدلا نہیں پر پھر بھی وہ
کیوں نظر انداز کر دیتے ہیں مجھ کو دیکھ کر
روز وعدہ کرتے ہیں کل شام کو گھر آؤں گا
تھک گیا ہوں سنتے سنتے با خدا بارِ دگر
جانے کج فہمی ہے کیوں مجھ سے مرے احباب کو
نہ تفوّق علمِ کا نہ نازشِ لعل و گہر
گر کسی محفل میں جاؤں تو کوئی واقف نہیں
آنکھوں آنکھوں میں سبھی ہنستے ہیں مجھ کو دیکھ کر
عمر گزری ہے فصیلِ شہر میں رہتے ہوئے
پھر بھی کوئی دوست ہے نہ اجنبی کی رہ گزر
اور بھی کچھ طُول دے سکتا ہوں افسانے کو مَیں
پر یہی اچھّا ہے لِکھّوں قِصۂ دل مختصر
تا کہ کوئی دل نہ دُکھ جائے تری تحریر سے
ویسے بھی حاصل نہیں کچھ آہِ بے تاثیر سے

0
23