بُری فطرت نہیں لیکن مَیں اچھّا بن نہیں پایا
جہاں تک دیکھ سکتا تھا ہر اک شے کو حسیں پایا
چلے آؤ کہ اب تو صرف چند سانسیں ہی باقی ہیں
وگرنہ پھر کہو گے ہائے اب زیرِ زمیں پایا
وہ جس کے حُکم سے ساری خدائی کانپ اُٹھتی تھی
اسے گوشہ نشیں دیکھا اسے عبرت نشیں پایا
وہ کشتی کس طرح کیسے کسی ساحل پہ پہنچے گی
جسے خود نا خدا نے توڑ کر کچھ بھی نہیں پایا
غلاظت کی طرف مکھّی کا آنا عین فطرت ہے
جہاں دولت نظر آئی سیاست داں وہیں پایا
ہمیں وہ بھول جائیں ایسا ہر گز ہو نہیں سکتا
کہ اپنے خانۂ دل میں تو ان کو ہم نشیں پایا
امید اک شخص وہ جو ہر جگہ ہنستا ہی رہتا تھا
اسے جب غور سے پرکھا پریشان و حزیں پایا

0
49