زندگانی کا سفر اب مختصر ہونے کو ہے |
یوں گماں ہوتا ہے سب زیروزبر ہونے کو ہے |
یہ بہاریں یہ فضائیں یہ زمین و آسماں |
ایک دن تو یہ سبھی کچھ بے سحر ہونے کو ہے |
وہ گناہ جو آج تک سب پردۂ اخفا میں تھے |
آج وہ غائب بھی سب پر مشتہر ہونے کو ہے |
یاد آتے ہیں پرانی محفلوں کے ہم نشیں |
جو کہا کرتے تھے سب لعل و گُہر ہونے کو ہے |
اُڑ رہی ہے ان محافل سے جُڑی یادوں کی دُھول |
جن کو ہم سمجھے تھے دائم مستقر ہونے کو ہے |
گرچہ آدم زاد ہے لیکن فرشتوں سے عظیم |
آج اُن کے سامنے خود بے اثر ہونے کو ہے |
دیکھ کر نارِ جہنّم میں تری مخلوق کو |
فرقۂ ابلیس و شیطاں معتبر ہونے کو ہے |
میرے مونہہ میں خاک پر اس پستییٔ انسان سے |
مجھ کو لگتا ہے کہ شیطاں مفتخر ہونے کو ہے |
پھر بھی اک طبقہ ہے جو بے دام بے چون و چرا |
تیری چاہت کے لئے خود در بدر ہونے کو ہے |
ان پہ واضح کر دے اس ایمان کا لُبِّ لباب |
جو تری آیات کا مطمع نظر ہونے کو ہے |
جن مسائل پر کبھی تجھ کو رہی نہ دسترس |
اُن مباحث سے تُو اک دن منتشر ہونے کو ہے |
آؤ خواجہ صاحب اس شہرِ خموشاں کی طرف |
جس کی مِٹّی میں ترا جلدی گزر ہونے کو ہے |
معلومات