مجھ کو برباد کسی اور کو آباد کیا
اب مجھے بھُول جا جاتے ہوئے ارشاد کیا
دولت و جاہ ہی کیا کم تھی جو اک اور بھی فرق
مجھ کو اک عام سا اور اس کو پری زاد کیا
ڈال کے زنداں میں معصوموں کے پر کاٹ دئے
پھر کہا مالی نے جاؤ تمہیں آزاد کیا
ان کے قاصد نے مجھے شکووں سے بیزار کیا
پھر بھی خوش ہوں کہ کسی طَور مجھے یاد کیا
گر کسی شکل نے اک شخص کو دیوانہ کیا
آ بتا مجھ کو اے واعظ کہاں الحاد کیا
دودھ مہنگا کیا فرہاد کی خواہش نے جناب
ایک کو شاد بھری دنیا کو ناشاد کیا
سو گئے آج زمین اوڑھ کے آخر وہ امید
جو کہا کرتے تھے ہر شہر کو آباد کیا
بی۳

0
87