کون غلطی پر تھا سوچیں گے کبھی
مَیں یا وہ جو جان میری تھے کبھی
وعدے کرنے میں بڑے فیّاض ہیں
ہاں مگر کرتے نہیں پُورے کبھی
بھُوک کیا ہے ان کو بابا کیا خبر
حُکمراں سوئے نہیں بھُوکے کبھی
جا بجا انبار ہیں لاشوں کے دوست
جنّتوں میں دیکھے نہ لاشے کبھی
آج بھی بچّوں کی فیسیں رہ گئیں
کاش ان کے بابا نہ مرتے کبھی
پھونک ڈالے شک نے کتنے گھر کے گھر
شاید ایسے لوگ نہ ہوتے کبھی
کر دئے سب اپنے پردے آشکار
کاش میرے زخم نہ رِستے کبھی
زندگی ویران کر کے چل دئے
ہائے دھوکے باز نہ ملتے کبھی
کھو دئے ہائے مقاماتِ بلند
کاش اتنا بھی نہ وہ گرتے کبھی

0
26