جہاں تک کام کرتی ہیں نگائیں تیرہ بختی ہے
غریبی رقص کرتی ہے مصیبت ساتھ چلتی ہے
کسی کا پیٹ ننگا ہے کسی کے پاؤں ننگے ہیں
یہاں پر ہر کوئی ننگا ہے یہ ننگوں کی بستی ہے
اُدھر حوّا کی بیٹی سیٹھ کے پہلو میں لیٹی ہے
ضرورت جبر کرتی ہے حیا آنسو بہاتی ہے
کسی بیمار بُوڑھے کا قلی گیری کا پیشہ ہے
غریبی ہر قدم پے بے بسی پر ہاتھ ملتی ہے
یہاں پر کچھ لُٹیرے قوم کی دولت پہ قابض ہیں
بظاہر سارے ہی چُپ ہیں بباطن فاقہ مستی ہے
یہاں قائد کے بچّوں کے لئے ہر چیز مہنگی ہے
مگر کہنے کو یوں ارضِ وطن قائد کی دھرتی ہے
یہاں پر مسجدوں میں باخدا وہ کام ہوتے ہیں
شرافت بَین کرتی ہے صداقت سر پٹکتی ہے
نہیں اسکول یہ واللہ لواطت گاہ ہے سُن لو
کہوں ماں باپ سے کیسے یہ شیطانوں کی بستی ہے

0
59