عارضے بڑھتے گئے اور نیند کم ہونے لگی
دیکھ کر اپنا سراپا آنکھ نم ہونے لگی
جن اجالوں پر بنی آدم کو تھا فخرو غرور
وہ ضیائے نور تاریکی میں ضم ہونے لگی
مَیں نے دلبر کی نہ تھی تیری شکایت حشر میں
میری حالت سے کہانی خود رقم ہونے لگی
پَے بہ پَے ناکامیوں سے اتنا تو حاصل ہؤا
اب طبیعت خود بخود ثابت قدم ہونے لگی
کر دیا مہنگائی نے ہر ایک کا جینا حرام
پہلے ہی تھوڑی تھی انکم اور کم ہونے لگی
اس طرف دردِ جدائی اس طرف فکرِ معاش
شرکتِ غم سے طبیعت غم بہم ہونے لگی
کتنے ہنگامے تھے شمعِ زیست کے خواجہ امید
یہ لپٹ بھی باخدا آخر مدّھم ہونے لگی

0
93