عارضے بڑھتے گئے اور نیند کم ہونے لگی |
دیکھ کر اپنا سراپا آنکھ نم ہونے لگی |
جن اجالوں پر بنی آدم کو تھا فخرو غرور |
وہ ضیائے نور تاریکی میں ضم ہونے لگی |
مَیں نے دلبر کی نہ تھی تیری شکایت حشر میں |
میری حالت سے کہانی خود رقم ہونے لگی |
پَے بہ پَے ناکامیوں سے اتنا تو حاصل ہؤا |
اب طبیعت خود بخود ثابت قدم ہونے لگی |
کر دیا مہنگائی نے ہر ایک کا جینا حرام |
پہلے ہی تھوڑی تھی انکم اور کم ہونے لگی |
اس طرف دردِ جدائی اس طرف فکرِ معاش |
شرکتِ غم سے طبیعت غم بہم ہونے لگی |
کتنے ہنگامے تھے شمعِ زیست کے خواجہ امید |
یہ لپٹ بھی باخدا آخر مدّھم ہونے لگی |
معلومات