سنو اے خالد و طارق غزہ تم کو بلاتا ہے |
ستاون ملکوں کا ہم سے برائے نام ناطہ ہے |
ہماری مائیں بہنیں بیٹیاں نوچیں ہیں یاہو نے |
ہمارے شیر خواروں پر فلک آنسو بہاتا ہے |
اگر ہم رونا بھی چاہیں تو واللہ رو نہیں سکتے |
کہ دل کے درد کو ان آنسوؤں سے دھو نہیں سکتے |
جسے خاوند کی نظروں میں کیا بے آبرو مَیں ہوں |
ستاون بھائیوں تک جس کی نہ پہنچی ہاؤ ہو مَیں ہوں |
مرے بچّوں پہ پابندی تھی آنکھیں کھول کر دیکھیں |
پھرایا ہے جسے کر کے برہنہ چار سُو مَیں ہوں |
ستاون بھائی ہوں جس کے وہ بولو کیا کرے لوگو |
شرم سے ڈُوب جائے یا کہیں پر جا مرے لوگو |
پڑے سوئے رہو یونہی تمہیں کیا کون ہوں کیا ہوں |
حیا لُوٹی گئی جس کی وہ بے بس سا تماشا ہوں |
مگر تُم سو رہو اُٹھنے سے غیرت جاگ جاتی ہے |
پیمبر سے کہوں گی دیکھ لیں بے جان لاشہ ہوں |
مَیں ابراہیم کی یعقوب کی موسیٰ کی بیٹی ہوں |
و لیکن بے بسی سے غیر کے پہلو میں لیٹی ہوں |
معلومات