مر گئی کیونکہ دوائی کے لئے پیسے نہ تھے
اللہ بھی راضی نہیں دامن میں کچھ سجدے نہ تھے
کر لیا ترکِ تعلقّ تا کہ وہ راضی رہیں
آج بھی دل ہے وہیں کہ اس پہ تو پہرے نہ تھے
پھر رہے ہیں ہاتھ میں خیرات کے برتن لئے
دے دو کچھ راہِ خدا کہتے ہوئے ڈرتے نہ تھے
یہ غَلَط ہے جھوٹ ہے سب افترا ہے کذب ہے
یوں تو مرنا ہے مگر اس پر کبھی مرتے نہ تھے
مر گئے ہیں شاعرِ اعظم ہمارے شہر کے
دفن کے پیسے نہیں کہ کام کچھ کرتے نہ تھے

0
62