تمیزِ لالہ و گُل کا تعلّق باغباں سے ہے |
ترے افشائے غم کا راز تیرے رازداں سے ہے |
کبھی ترکِ تعلّق کا فسانہ عام نہ کرنا |
وگرنہ لوگ سمجھیں گے یہ شکوہ جانِ جاں سے ہے |
ذرا ٹھہرو مجھے ان بھیک منگوں سے تو ملنے دو |
مرا ماضی بھی وابستہ انہی کی داستاں سے ہے |
بہت اچھّا ہؤا جو وقت پر ٹھکرا دیا اُس نے |
وگرنہ ہم سفر کہتے ترا رشتہ خزاں سے ہے |
چلو اُٹھّو دوبارہ اس زمیں میں تازگی بھر دو |
مرا مقصود اے لوگو جوانوں کے جہاں سے ہے |
غزہ سے چشم پوشی کر کے جو قرآن پڑھتے ہو |
نسا کی آیت ستّر پانچ تو ثابت قرآں سے ہے |
۔ |
معلومات