آؤ اے دوست پھر بہم ہو جائیں
شاید کچھ دوریاں ہی کم ہو جائیں
ناراضیوں پر مکالمہ ممکن ہے
گر تُم اور مَیں پھر سے ہم ہو جائیں
کتنے ہی گھر اُجڑتے دیکھے ہیں
دونوں آپس میں جب اہم ہو جائیں
کیوں نا سر پیٹ کے رو لیں سارے جب
پُوری دنیا میں غم ہی غم ہو جائیں
سچ ہی کہنا ہے سچ ہی کرنا ہے
چاہے سارے ہی سر قَلَم ہو جائیں
کیسے سُدھرے گی حالتِ زار امید
جب یہ حاکم ہی بے شرم ہو جائیں

0
73