نہ خوشیوں پر تعجبّ ہے نہ کوئی غم ستاتا ہے
عمل کا خانہ خالی ہے یہ دُکھ پیہم ستاتا ہے
مرے آنے نہ آنے سے کسی کو فرق ہو تو کیوں
کہ اب تو تیرے نا آنے کا غم بھی کم ستاتا ہے
خزاں کے نام سے عاشق مزاجوں کو شکایت ہے
بچھڑنے والوں کو ذِکرِ گُل و شبنم ستاتا ہے
یہ دنیا کیسی دنیا ہے کہاں ہم آ پھنسے یارو
کبھی منزل نہیں ملتی کبھی گوتم ستاتا ہے
تلاطم خیز موجیں ہیں کہیں ساحل نہیں ہمدم
کبھی گرداب غُصّے میں کبھی موسم ستاتا ہے
وہ تیرے عارض و گیسو وہ تیری چال مستانی
ترا بننا سنورنا مسکرانا غم ستاتا ہے
تجھے بھی خوف دامن گیر ہے اور مَیں بھی ڈرتا ہوں
تجھے ہے فکر دشمن کی مجھے محرم ستاتا ہے
کوئی ہو خِضرِ راہ یا ربّ کوئی منزل پہ پہنچا دے
نہ محفل ہے نہ ساقی ہے یہی اک غم ستاتا ہے
ہجومِ یاس ہے لیکن پھٹے گی پَو یہیں خواجہ
مرا رہبر وہی ہے جس پہ ہے کامل یقیں خواجہ

29