رخصت ہوئے وہ جب تو بڑا اضطراب تھا
کوئی ہؤا ناکام کوئی کامیاب تھا
رندانِ بادہ خوار تھے مصروفِ میکدہ
کونے میں سب سے دُور اک عزّت مآب تھا
قسمت بُری ہے یا کوئی طرزِ منافرت
جب بھی وہاں گیا ہوں وہ پا بہ رکاب تھا
دوری تھی جب تلک تو بڑا احترام تھا
دیکھا قریب آ کے تو مطلق سراب تھا
دیکھا جو دیر بعد تو جھُریاں تھیں ہر طرف
کیا غمزہ تھا ادائیں تھیں کھلتا گلاب تھا
لُوٹا بڑی بے دردی سے قائد کے دیس کو
نہ محتسب تھا کوئی نہ ہی احتساب تھا
لختِ جگر علیل ہے اور ماں بھی جاں بہ لب
جانیں بچانا شیخ جی کارِ ثواب تھا
رہنے بھی دو امید یہ پند و نصائح اب
تُم بھی جوان تھے کبھی تُم پر شباب تھا

0
26