مَیں نے جو لکھ دیا ہے ترے کام کا نہیں
مَیں نُور ہوں سحر کا تری شام کا نہیں
وہ پڑھ تری دیوار پہ کیا لکھ گیا کوئی
یہ وقت ہے کچھ کرنے کا الزام کا نہیں
منصب اگر ملا ہے تو اس کو عطا سمجھ
سب محترم ہیں کوئی بھی بے دام کا نہیں
کیوں موردِ الزام ہو موسم کے رنگ پر
تیرا قصور ہے ترے ایّام کا نہیں
کل مِل گیا رقیب تو کہنے لگا کہ تُم
مندر کا نام لیتے ہو پر رام کا نہیں
دیکھا ہے ہم نے ماضی میں بھی دورِ ابتلا
پر اس طرح کے رنج و غم آلام کا نہیں
ہر ایک کا خیال مرے رہنما کو ہے
لوگوں کا اور عوام کلانعام کا نہیں
دونو چلے تھے ساتھ میں اک پیچھے رہ گیا
وِنّر کا نام رہتا ہے ناکام کا نہیں
امید آ گئے ہو تم اس بزم میں جہاں
شہرت کا نام چلتا ہے گمنام کا نہیں

0
27