آنسُو آنکھوں میں دل میں چھالے ہیں
ہجر کے قافیے سنبھالے ہیں
میرے عصیاں تو سب سے مخفی تھے
میرے اک دوست نے اچھالے ہیں
اس کی ہمّت کو سب سلام کرو
جس نے دشمن بھی گھر میں پالے ہیں
مری تعریف پر جو جھومتے تھے
آج ان کے لبوں پہ تالے ہیں
کچھ خطوط اور اک کسک دل کی
مَیں نے دونو ہی رکھ سنبھالے ہیں
مَیں نے دنیا میں کچھ نہیں چھوڑا
اک صراحی ہے دو پیالے ہیں
اتنی ظلمت کہ گھُور اندھیرا ہے
نہ ہے مہتاب نہ اجالے ہیں
لکھنے والوں کی رفعتوں کو سلام
کتنے طوفاں قلم سے ٹالے ہیں
یوں تو اسفل کہا ہے اللہ نے
ولے مثبت بھی کچھ حوالے ہیں
آؤ سب ظُلم سے لڑیں امید
مَیں نے بھی کچھ اصول ڈھالے ہیں

0
14