دیکھ کر میرا سراپا پھیر لی ایسے نظر
کوٹھیوں کے بیچ ہو جیسےکسی مفلس کا گھر
جانتا تھا مَیں کہ اس کی سلطنت کو ہے زوال
پر کبھی سوچا نہ تھا مارا پھرے گا در بدر
ہر کہہ و مہہ پر تغیّر ہے یقیناً بالیقیں
پر غریبوں کے نصیبوں میں وہی شام و سحر
کیوں سیاستدان میں غیرت نہیں ہوتی کہو
کیونکہ یہ موصوف کی فطرت میں ہے چیزِ دگر
دل لگی کا جوش مجھ کو بھی کبھی کرتا ہے تنگ
پھر خیال آتا ہے چھوڑو خواہ مخواہ کا دردِ سر
روٹیاں مل جائیں تو سالن نہیں ملتا ہمیں
زندگی بھر کا سیاپا در سیاپا عمر بھر
توڑ ڈالو پھونک ڈالو اُس زمانے کو امید
جس کی سانسوں میں نہیں انصاف کا ہرگِز گزر

0
104