جب کسی کام کے انجام سے پچھتانا پڑا
کاش آغاز نہ کرتا یہی سمجھانا پڑا
جب کسی بات پہ اک دوست کو تکلیف ہوئی
جب بھی ملتا ہوں اسی بات پہ شرمانا پڑا
زندگی تجھ کو مرے ہاتھ سے کیا رنج ملا
تجھ سے مل کر بھی مجھے رات کو گھر جانا پڑا
مجھ کو اے زیست نہیں تیرے حوادث سے گِلہ
گرچہ مشکل تھا مگر گیت ترا گانا پڑا
وہ مجھے چھوڑ گیا مَیں بھی اسے بھُول گیا
دونوں سچّے تھے تو کس بات پہ پچھتانا پڑا
تم چلے جاؤ گے تو دوسرا مِل جائے گا
تیرے جانے سے مجھے کون سا جرمانہ پڑا
اب تلک یاد ہیں مجھکو ترے آرائشِ گُل
اسلئے ہی تو مجھے لَوٹ کے گھر آنا پڑا
اس نے چھوڑا تھا تو اب مَیں نے اسے چھوڑ دیا
ایک ہی کرب سے دو بار گزر جانا پڑا

0
32