تب عالمگیر کو دیکھا تھا اب بابر کو برداشت کرو
یا بندے دے پُتُر بن جاؤ یا جان اپنی خیرات کرو
اب اور کوئی رستہ ہی نہیں اب ایک ہی رستہ باقی ہے
اے ارضِ وطن کے فرزندو اب گولیوں کی برسات کرو
اک آندھی بن کر چھا جاؤ اور کاٹ کے رکھ دو گنگ و جمن
دشمن کو بتا دو آئے ہیں ہر گام پہ ان کو مات کرو
چوکوں گلیوں کو بند کرو یہ جانے نہ پائیں قاتل ہیں
بزدل ہیں یہ ڈرپوک ہیں یہ رستوں چوکون پہ گھات کرو
تم اپنے باپ کے قاتل ہو اپنی ہی فوج کے دشمن ہو
کیوں مارا بپّن راوت کو کبھی کھُل کر اس پر بات کرو
مظلوموں پر چِلّاتے ہو بے بس پر رعب جماتے ہو
کیا مشغلہ ہے کیا عادت ہے جو گھر گھر میں اموات کرو
مکّار ہیں یہ عیّار ہیں یہ سارے ذہنی بیمار ہیں یہ
یہ سارے سالے پاگل ہیں ان پاگلوں پر جمرات کرو
گجرات میں قتلِ عام کئے اور دِلّی میں تیرے غنڈوں نے
سب کی عصمت پامال کرو کے جاری احکامات کرو
ہم بیٹے ہیں قائدِ اعظم کے اور اقبالی شاہین ہیں ہم
تم رات کو مارنے آئے تھے ہمیں حُکم ہے یہ دن رات کرو

0