شام و عراق و افغان
مَیں اکیلا ہی نہیں سب ابنِ آدم ہیں یہاں
اُٹھ رہا ہے ہر مکاں ہر قصر سے کالا دھواں
اب سروں کو جوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں ساتھ ساتھ
لاشوں پر تعمیر کرنے شہر کوچے بستیاں
گر کبھی دیکھے نہیں ہیں لشکرِ اِبلیس تو
آؤ آ کر دیکھ لو ساری منافق ہستیاں
بھولے بھالے چہروں کے پیچھے غلاظت کا غبار
ان میں کا ہر فرد ہے شیطان کا روحِ رواں
مونہہ سے کچھ کہتے ہیں لیکن اندریں خانے کچھ اور
گر کبھی تھوڑا توقّف ہو تو خود دیکھو میاں
کر دیا برباد شام و فارس و افغان کو
بھُون ڈالے بچّے بُوڑھے عورتیں پیر و جواں
سارے ظالم ہیں منافق ہیں گروہِ فتنہ گر
اک سے بڑھ کر ایک ہے ان میں نجاست کا نشاں
کہتے ہیں کچھ اور لیکن اندرونِ خانہ اور
سینہ چنگیز و ہلاکو نطق پر شیریں بیاں
ہاں مگر ہم میں بھی اکثر ان کے دستِ راست ہیں
سارے ہی مومن ہیں ان میں سارے اچھّے مسلماں
ابتدا کی تھی جہاں سے انتہا بھی ہے وہی
ایک جامد قوم کی امید کیا ہو داستاں

0
85