عجب مضمون ہے جو ختم ہونے میں نہیں آتا
اگر وہ بات نہ کرتے تو خوابوں پر یقیں آتا
مجھے کیا علم تھا کہ وہ بھی آ بیٹھے ہیں محفل میں
وگرنہ عذر کر لیتا یا پھر خلوت نشیں آتا
چلو اچھا ہؤا دل کی زباں پر آ گئی آخر
اگر وہ آج نہ کہتے یہ مضموں بعد ازیں آتا
یہ کیوں ہر وقت مجھ پر ہی نئی اک آزمائش ہے
کوئی رخشندہ خُو ہوتا کوئی ماہِ جبیں آتا
نہ دنیا میں سکوں پایا نہ جنّت کی امیدیں ہیں
مرا حِصّہ یہاں نہ تھا تو یا ربّ کچھ وہیں آتا
بہت کم ہیں خدایا جو یہاں پر خوش نظر آئے
اگر یہ علم ہوتا کیوں کوئی رُوئے زمیں آتا
جہنّم زار تکلیفیں مصیبت نقد و نقدی ہیں
کوئی جنّت ہی دی ہوتی کہیں عرشِ بریں آتا
بہت کچھ کھو چکے امید لیکن اب بھی ممکن ہے
کوئی مخلص ہی مِل جاتا کوئی صادق امیں آتا

44