حالات نا گزیر سہی در بدر نہیں
کیا بیت گئی رات پہ دن کو خَبَر نہیں
کنجِ قفس میں رہ کے بھی شکوہ نہیں کیا
وہ تیرگی ہے با خدا جسکی سحَر نہیں
وہ اپنی بات کہتے ہیں تو مَیں کیوں چُپ رہوں
یا یوں سمجھ لوں آہیں مری بارور نہیں
قصر و محل سرائیں میسّر ہے سب انہیں
اور میرے لئے شہر میں چھپّر کا گھر نہیں
یہ کیا غضب کہ انکی تو ہر اک دعا قبول
مظلوم کی دعاؤں میں کوئی اثَر نہیں
سمجھا لیا ہے اب دلِ رنجور کو صنم
یا مَیں نہیں یا اب وہ تری رہ گزر نہیں
ممکن نہیں ہے تیری اداؤں پہ مر مِٹوں
مرنا ہی ہے تو بھُوک بھی کچھ کم اثر نہیں
لکھ لِکھ کے کالے کر دئے کاغذ قلم امید
پر کیا کروں زمیں پہ کوئی دیدہ ور نہیں

0
26