تُم غَلَط سمجھے وہاں پر مَیں نہ تھا
مجھ پہ غُصّہ ہے تمہارا بے وجہ
وہ جنہیں تم سے کدورت ہے صنم
میرا اُن لوگوں سے کیسا واسطہ
خبرِ بد چھوڑی رقیبوں نے کہیں
اور تُم نے پڑھ لی میری فاتحہ
لے گئے ڈولی اُٹھا کر جب کہار
دل پہ پتھّر رکھ لئے جانِ وفا
کتنے سالوں سے دوا نا چارہ گر
مر گیا بابا تو اب کیسی دوا
ڈُوبتی ہے ڈُوب جائے کیا کروں
قوم کی کشتی کا حافظ ہے خُدا
پھیر لیں نظریں مجھے دیکھا اگر
دوریاں بڑھنے لگی ہیں بے وجہ
بِک گئے مجبوریوں میں تن بدن
دوسرا شاید نہیں تھا راستہ
تجھ سے مِل کر بڑھ گئیں مایوسیاں
مَیں تو ہوں مجبور تُم مجھ سے سوا
ہاتھ اِٹھاؤ کر کے آنکھیں بند امید
پوری ہو گی جو بھی مانگو گے دعا

0
177