افسردہ ہو غمگین ہو کس سوچ میں گُم ہو
مَیں ساتھ ہی بیٹھا ہوں مرے ساتھ ہی تُم ہو
فرقت پہ تو ناراض تھے اب ملنے پہ ناراض
اب تک نہ سمجھ پایا صنم کیسے صنم ہو
ہے جلبِ زر و مال کا ہر بندہ پجاری
گفتار کا غازی ہو کہ قاضی کا قلم ہو
خود غرضی ہے بس اپنی ہی تکلیف پہ کَڑھنا
کوئی بھی نہیں جس کی یہاں آنکھ نہ نم ہو
مایوسیاں گھیرے رہیں ماضی میں وطن کو
اللہ ہی کو ہے علم کہاں اگلا قدم ہو
گھبرائے ہوئے پھرتے ہو مایوس ہو ہر دم
زندہ ہو مگر زندوں میں رہ کر بھی عَدَم ہو
یہ جلنے کی بیماری ہے یا رشک ہے خواجہ
ہو جاتا ہوں غمگین اگر کوئی بہم ہو

0
81