اعراضِ عقل و خِرد نہیں ہر نفس کا کام
انسان حِرص و آز کا ہے دائمی غلام
آلائشِ دنیا سے کوئی کب رہا ہے دُور
جتنا بھی سیَر ہو مگر پھر بھی ہے تِشنہ کام
مِل تو گیا عروج مگر دائمی نہیں
آتا ہے دن کے ساتھ تو جاتا ہے وقتِ شام
کتنا کوئی حبیب ہو کتنا کوئی رفیق
کچھ لمحوں پر محیط ہے واللہ تام خام
ماضی کی یادوں سے نہیں ہے ماورا کوئی
چاہے خدا کا بندہ ہو یا ہو مطیعِ رام
کیوں واپسی نہیں ہے ماضی کی مرے خدا
کیا ایسا کرنے سے کبھی بدلا ترا نظام
مانا زمین و آسماں پر ہے تری پہنچ
یہ آدمِ خاکی بھی ہے تو تیرا ہی غلام
اک بار میرے بچپنے کی ہو جو واپسی
تیری خدائی پھولے پھلے جیئیں خاص و عام
کر معجزے سے واپسی گزرے زمانے کی
دوڑ پیچھے کی طرف کچھ لمحے چند گام

0
3