سوچا تھا کچھ اور پہ لکھتا ہے قَلَم اور
ہم خاک نشینوں پے ہوئے ظلم و ستم اور
منزل کی تمنا تھی مگر رستے ہیں اوجھل
رکھتے ہیں کہیں اور تو پڑتے ہیں قدم اور
اک خواب کی خواہش ہے مگر جاگتی آنکھوں
رہنے کے لئے گھر نہیں گھُٹنے کو ہے دم اور
خوش رہنے کی سب کوششیں ناکام ہوئی ہیں
مرغوب کے ملبوس میں پلتے رہے غم اور
دولت کی ہوس کر گئی ویران ملک کو
پہلے بھی کہاں کم تھے جو اب غم پہ ہیں غم اور
اب تیری ضرورت نہیں کافی ہوں مَیں خود ہی
بازار سے مِل جائیں گے پتھّر کے صَنَم اور
غربت کا اگر کوئی تدارک نہ کیا تو
خطرہ ہے کہ اپنائیں گے سب کوئی دھرم اور

0
41