سوچا تھا کچھ اور پہ لکھتا ہے قَلَم اور |
ہم خاک نشینوں پے ہوئے ظلم و ستم اور |
منزل کی تمنا تھی مگر رستے ہیں اوجھل |
رکھتے ہیں کہیں اور تو پڑتے ہیں قدم اور |
اک خواب کی خواہش ہے مگر جاگتی آنکھوں |
رہنے کے لئے گھر نہیں گھُٹنے کو ہے دم اور |
خوش رہنے کی سب کوششیں ناکام ہوئی ہیں |
مرغوب کے ملبوس میں پلتے رہے غم اور |
دولت کی ہوس کر گئی ویران ملک کو |
پہلے بھی کہاں کم تھے جو اب غم پہ ہیں غم اور |
اب تیری ضرورت نہیں کافی ہوں مَیں خود ہی |
بازار سے مِل جائیں گے پتھّر کے صَنَم اور |
غربت کا اگر کوئی تدارک نہ کیا تو |
خطرہ ہے کہ اپنائیں گے سب کوئی دھرم اور |
معلومات