وہ پوچھتے ہو جس کا مجھے علم نہیں ہے |
جن گلیوں میں رہتا ہوں صنم تُو بھی وہیں ہے |
وہ جس کو کبھی حُسنِ خداداد پہ تھا زعم |
وہ آ کے یہاں دیکھ لے ہر چیز حسیں ہے |
مسند سے رہی دیر تلک جس کی رقابت |
اب خود بھی بڑی شان سے سجّادہ نشیں ہے |
بچّوں کے لئے مائیں لڑا دیتی ہیں جانیں |
شاید ہو کسے وہم مگر میرا یقیں ہے |
ہنسنے کی اجازت نہیں اس شہر میں اے دوست |
ہر آدمی خاموش ہے ہرشخص حزیں ہے |
دشمن کو اجازت ہے کریں خوب زیارت |
ہم نے کبھی چاہا تو کہا پردہ نشیں ہے |
جس شخص کو امید یہاں ڈھونڈ رہے ہو |
اس گھر کو یہیں چھوڑ وہ اب زیرِ زمیں ہے |
بی۳ |
معلومات