گلشن ہے باغ ہے نہ چمن پر نکھار ہے |
جس سمت دیکھتا ہوں فضا سَوگوار ہے |
کل تک جنہیں ہر آن تھا بس میرا ہی جنوں |
اب تو انہیں کو شکل مری ناگوار ہے |
پھولوں پہ رنگ ہے نہ ہے کلیوں پہ تازگی |
یہ کیسا باغبان ہے کیسی بہار ہے |
ہر مفلس و نحیف کے چہرے پہ وحشتیں |
ہر جھونپڑی کے سامنے لمبی سی کار ہے |
گندے غلیظ کپڑوں میں عُسرت کے نو نہال |
بکتے ہیں ہر گلی میں یہ بھی کاروبار ہے |
آ کے زمیں پہ دیکھ اُس آدم کے شب و روز |
جو خُلد کا مکیں تھا وہی سرِ دار ہے |
کتنی جوان کلیاں کبھی کھِل نہیں سکیں |
بوڑھا غریب باپ بڑا شرم سار ہے |
ملتا ہے تیرے قُرب سے گرچہ سکونِ قلب |
پر کیا کروں ہر آدمی سے مجھ کو پیار ہے |
ہر آدمی سے میرا تعلّق ہے خون کا |
ہر آدمی کا مقبرہ میرا مزار ہے |
اس طرف لَوٹ جاتی ہے نظرِ وفا شعار |
انسانیت کا قرض بھی سب پر ادھار ہے |
دُوری کی وجہ ادنٰیٰ و اعلیٰ میں فرق ہے |
پر کیسے ختم ہو کہ رہِ کارزار ہے |
معلومات