ایک کام لا جواب کرنا ہے
اپنا بھی احتساب کرنا ہے
شبِ دیجُور ختم کرنی ہے
رات کو ماہتاب کرنا ہے
ابُو ذر سے بھی علم لینا ہے
فقر کو بُو تراب کرنا ہے
کچھ لعینوں نے کانٹے بوئے ہیں
اُن کو بھی پھر گلاب کرنا ہے
عمر اس کشمکش میں گزری ہے
دوست کا انتخاب کرنا ہے
رشتوں کا احترام کرنا ہے
سب سے پیار بے حساب کرنا ہے
نیتن یاہو سے بدلہ لینا ہے
آخر اک دن حساب کرنا ہے
آدمیت کا درس دیتے ہیں جو
ان کو بھی بے نقاب کرنا ہے

0
31