گزارشِ احوال
معاشرے اور تہذیب وتمدّن کے بنانے سنوارنے میں جہاں سیاسی اور عمرانی زعما کا حصّہ رہا ہے وہاں کسی بھی معاشرے کی ترقّی و ترویج میں شعرا،نثّار اور ادبا نے بھی علم کی چاشنی کے ساتھ ساتھ اپنے افکار و خیالات سے نہ صرف قوموں اور ملکوں کی رہنمائی کی بلکہ اپنے موقلم سے زمانے کو لطیف جذبات سے نوازا بھی اور جہاں اسکی اقدار ناپید ہوئیں وہاں اسکی نیو بھی رکھّی اور پھر اسے پروان بھی چڑھایا بلکہ مَیں سمجھتا ہوں کہ جب بھی دنیا میں معاشی اور معاشرتی اونچ نیچ اپنی انتہا کو پہنچ گیا (یوں تو یہ تفریق ہمیشہ رہی ہے)تو یہی وہ لوگ تھے جو اپنی کم مائیگی اور بے سروسامانی کے باوجود خم ٹھونک کر میدان میں آئے اور بسا اوقات ایسا ہؤا ہے کہ ایک فرد یعنی محض ایک آدمی نے تاریخ کا دھارا بدل دیا مگر یہ سب کچھ آناً فاناً یا پلک جھپکنے میں نہیں ہو گیا بلکہ اسکے لئے انہوں نے بھی اور انکے رفقا نے بھی وہ وہ مصائب برداشت کئے کہ آج ان کا تذکرہ بھی محال لگتا ہے اور ایسا بھی ہؤا ہے کہ ان لوگوں کو اپنی زندگی میں اپنی تگ و دو آگے بڑھتی نظر نہ آئی مگر اسکے باوجود وہ اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹے اور پھر دنیا نے انکے جانے کے بعد انکی کاوشوں کو یوں سراہا کہ آج اگر ہم کسی بڑے آدمی کی سوانح عمری پڑھتے ہیں تو اکثریت ان لوگوں کی ملے گی جنہیں ان کی موت کے کافی عرصے بعد posthumously ایوارڈز اور بڑے بڑے تمغوں سے نوازا گیا جیسے مارٹن لوتھر کنگ اور نیلسن منڈیلا اور فیض احمد فیض اور سر اقبال رح رابندر ناتھ ٹیگور مولانا ابوالکلام آزاد ، مولانا مودودی رح وغیرہ وغیرہ اور ان سارے مشاہیر میں اکثریت صاحبِ علم و قلم کی ہے گویا قلم وہ طاقت ہے جس نے بڑے بڑوں کی گردنیں جھکا دیں اور اپنے زورِ قَلَم پر مروجّہ فرسودگی کے رُخ موڑ دئے
میری اس ساری تمہید کا اصل مقصد یہ ہے کہ آج بھی معاشی اور معاشرتیّ اور امیر غریب کی خلیج اتنی بڑھ چکی ہے کہ کوئی اس طوفانِ بد تمیزی کو روک نہیں سکتا بلکہ روکنا چاہتا نہیں کیونکہ اہلِ قلم،گستاخی معاف، اپنی ذِمّے داریاں پوری نہیں کر رہے مگر آپ یہ نہ سمجھیں کہ مَیں سبھی کی نفی کر رہا ہوں نہیں ایسا ہر گز نہیں ہے مگر یہ کہ بہت تھوڑے مشاہیر ایسے ہیں جنہوں نے علمِ بغاوت بلند کیا مگر بہت تھوڑے بھی ہیں اور مذکورہ خلیج کو پاٹنے کی کوشش بھی نہ ہونے کے برابر
ابھی کچھ دن پیشتر میری لاہور کے ایک نمائندہ شاعر سے بات ہوئی تو مَیں نے انہیں دوستانہ انداز میں یاد کرایا کہ آپ کی شاعری کو کافی لوگ پڑھتے ہیں تو آپ اپنی غزلوں میں معاشی اونچ نیچ کا ذکر کیوں نہیں کرتے تو کہنے لگے کہ یہ مسائل غزل کی حدود میں نہیں آتے بلکہ کہا کہ مَیں غزل کو غزل ہی رکھنے کے حق میں ہوں کیونکہ اگر اسمیں دوسرے مسائل کا ذکر کیا گیا تو اسکی ہیئت بھی بدل جائے گی اور غزل کے
ساتھ ظُلم بھی ہو گا تو معاً میرے دل میں خیال آیا کہ جو پوری نسلِ انسانی پر ظلم ہو رہا ہے اس کا کوئی آپ کو غم نہیں
احمد فراز مرحوم نے کیا خوب کہا ہے کہ :
شکوۂ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حِصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
مَیں بھی اسی لئے پچھلے دس پندرہ برس سے مسلسل لکھ رہا ہوں اور میری شاعری کا
مرکزی نکتہ معاشی و سماجی خلیج کو پاٹنا اور محروم طبقات کے حق میں آواز اٹھانا
ہے جبکہ مجھے خوب علم ہے کہ نقّار خانے میں طوطی کی اور صحرا میں دیوانے کی آواز کون سنتا ہے اور جہاں تک میری شاعری کا تعلقّ ہے تو اب تو کوئی غالب و اقبال اور فیض و فراز کو نہیں پڑھتا تو مجھ ایسے نیم خواندہ کو جسے شاعری کے رموز کا بھی کوئی علم نہیں ، کون پڑھے گا - تاہم اپنی سی ایک سعی ہے کہ شاید کسی ایک آدھ کے دل میں کوئی مثبت بات گھر کر گئی تو داورِ محشر کے ہاں بھی قبولیتّ حاصل کر لے اور کیا عجب کہ کسی قوّتِ مقتدرہ کا دل بھی پسیج جائے انشآاللہ!
امید محی الدّین خواجہ
0031 622905498

0
44