پہچان کر پہچاننے سے صاف پھر گئے |
بربط کے تار ٹُوٹے تو نغمے بکھر گئے |
غلطی سے ہاتھ لگ گئے زُلفِ دراز پر |
چلئے اسی بہانے سے گیسو سنور گئے |
کاٹی ہو جس نے زندگی روتے ہوئے یہاں |
اس کی بلا سے بچّے اگر زر بہ زر گئے |
بیدار آرزوؤں سے ہے زندگی کا حُسن |
بدلا اگر نہ کچھ بھی پھر بھی بے ضرر گئے |
اک تُُو ہی تو نہیں ہے جو اِبن الغریب ہے |
کافی ہیں اس جہاں سے جو شوریدہ سر گئے |
سب جانے والے کے لئے پڑھتے ہیں مغفرت |
پر کچھ گئے تو کہتے ہیں بیداد گر گئے |
دائم رہیں گے نام اُن کے لوحِ عرش پر |
جو زندگی میں کچھ نہ تھے پر نام ور گئے |
کر لو جدا وہ راستے وہ منزلیں امید |
جن راستوں پہ چل کے ترے چارہ گر گئے |
معلومات