پہچان کر پہچاننے سے صاف پھر گئے
بربط کے تار ٹُوٹے تو نغمے بکھر گئے
غلطی سے ہاتھ لگ گئے زُلفِ دراز پر
چلئے اسی بہانے سے گیسو سنور گئے
کاٹی ہو جس نے زندگی روتے ہوئے یہاں
اس کی بلا سے بچّے اگر زر بہ زر گئے
بیدار آرزوؤں سے ہے زندگی کا حُسن
بدلا اگر نہ کچھ بھی پھر بھی بے ضرر گئے
اک تُُو ہی تو نہیں ہے جو اِبن الغریب ہے
کافی ہیں اس جہاں سے جو شوریدہ سر گئے
سب جانے والے کے لئے پڑھتے ہیں مغفرت
پر کچھ گئے تو کہتے ہیں بیداد گر گئے
دائم رہیں گے نام اُن کے لوحِ عرش پر
جو زندگی میں کچھ نہ تھے پر نام ور گئے
کر لو جدا وہ راستے وہ منزلیں امید
جن راستوں پہ چل کے ترے چارہ گر گئے

18