دِلِ بیتاب کی بیتابیوں نے کیا ستم ڈھایا
جسے سوچا نہیں تھا اس پہ ظالم دل مچل آیا
اگر سارے ٹھکانے یک بیک معدوم ہو جائیں
تو ایسے میں سہارا دے گا بس ماں باپ کا سایہ
زمانے تُو نے آخر دو دلوں کو توڑ ہی ڈالا
مگر اتنا تو بتلا دے کہ ظالم کیا ثمر پایا
ترا طرزِ تغافل میری غیرت کا دفینہ ہے
مجھے اندھی وفاؤں نے بھی آ کر خوب بھڑکایا
مری اجڑی حویلی کے در و دیوار زخمی ہیں
کہیں ایسا نہ ہو اس پر ہو کوئی بھوت کا سایہ
مجھے ارضِ وطن کی ہرگلی ہر شہر پیارا ہے
یہ میری ماں ہے مَیں امید اسکی کوکھ کا جایا

0
32