روکتی ہیں عمر کی مجبوریاں
ورنہ خاطر میں نہ لاتا دوریاں
خواب میں بھی یہ کبھی سوچا نہ تھا
مجھ سے پہلے پونچیں گی بیساکھیاں
بے سبب تجھ کو گلہ ہے پھول سے
نا ہی ویسے پھول ہیں نا تتلیاں
جھوٹے قدر و منزلت پر با خدا
خود جلا ڈالی ہیں کتنی بستیاں
زندگی گزری ہے لہو و لہب میں
قبر میں نا کام آئیں مستیاں
غربت و افلاس کا عالم کہ اب
دال حاضر ہے تو غائب روٹیاں
سارے بچّے نعمتِ اللہ ہیں گو
مائی بابے کا سہارا بیٹیاں
پا لیا اعزاز یہ طارق نے گو
کون کہتا ہے جلا دو کشتیاں
کس طرح بھولوں گا وہ لمحے امید
سُن رہاں ہوں آج بھی وہ سسکیاں

0
152