روکنا مقصود ہے تو اپنی خواہشات روک
جو کسی کا دل دُکھا دے چھوڑ ایسی بات روک
اپنی قسمت سے گلہ ہر وقت کرنے کا نہیں
آنسوؤں پر بس نہیں پر آنکھ کی برسات روک
اس کے وعدوں پر نہ ہرگِز زندگی ترتیب دے
اپنے رستے آپ پیدا کر کے کالی رات روک
وہ تجھے بھُولا ہے تو اب تُو بھی اس کو بھُول جا
دل جلانے کا نہیں رسوائیوں کا ساتھ روک
غیر از مقصود اسرافات سے دامن بچا
جو تجھے مقروض کر دے ایسے اخراجات روک
غربت و افلاس سے بڑھنے لگے مقتل امید
مرنا تو سب نے ہے لیکن ناگہاں اموات روک

51