غلط ہے زندگانی لالہ رُخ کے تِل سے گزرے گی
اگر یہ سوچ نہ بدلی تو لا حاصل سے گزرے گی
مرا امروز ناواقف ہے اُلفت کے تقاضوں سے
یہ وہ لیلیٰ نہیں جو قیس کے محمل سے گزرے گی
ہوا کے دوش پر طوفان سے مت کھیلنا لوگو
اگر بپھرا گئی یہ موج تو ساحل سے گزرے گی
نہ سنگِ میل ہے راہوں میں نا رستہ ہے نہ پگڈنڈی
جو ایسے ہی رہا تو جانے کب منزل سے گزرے گی
گزر تو جائے گی تیرے بنا بھی زندگی لیکن
بہت بے چین و افسردہ بڑی مشکل سے گزرے گی
ہوا کے زور پر جو کرنا چاہو شوق سے کر لو
مگر اک دن تمہاری ناؤ بھی دلدل سے گزرے گی
ہوئی تخلیق چھ دن میں تو غم کیوں اتنے لمبے ہیں
کسے معلوم باقی عمر کس مقتل سے گزرے گی
حصول علم کا اک شوق دل میں تھا تسلسل سے
خبر کیا تھی کہ یہ خواہش بھی لا حاصل سے گزرے گی
کہاں لے آئی مجھ کو آج میری خانہ ویرانی
مری بے چارگی پھر آج اس محفل سے گزرے گی
فقط مَیں ہی نہیں امّت کا ہر اک شخص روتا ہے
غزہ کا خون شاہد ہے کہ اب جنگل سے گزرے گی

0
13