مَیں ٹھیک ہوں تو وہ بھی مہ پارہ نہیں نوید
تھوڑا فسانہ گو سہی سارا نہیں نوید
دعویٰ تھا کل تلک کہ رہِ یار کے عوض
منزل بھی کوئی مجھ کو گوارا نہیں نوید
جاہ و حشم بھی گردشِ لیل و نہار ہے
اس پر کسی بشر کا اجارہ نہیں نوید
مقروض اور کر گیا مجھ کو ترا سپاس
پہلا ابھی ادھار اتارا نہیں نوید
برداشت کر لے طعنے رقیبوں کے صبر سے
اب اور کوئی با خدا چارہ نہیں نوید
گر دید کی ہوس ہے تو سچّا نہیں ہے عشق
مہجوریت میں واللہ خسارہ نہیں نوید
جینا تھا اپنے بس میں نہ مرنے پہ اختیار
ایسا مذاق واللہ دوبارہ نہیں نوید
ربّ بھُولتا نہیں ہے یہ ایمان ہے مرا
کیوں رات میرا رزق اتارا نہیں نوید
آدھی صدی گزر گئی پر آج بھی امید
ازبر ہے قلب و ذہن پہ گفتارۂ نوید

0
104