انہیں ناراض ہونا ہو تو مجھ کو خواب آتا ہے
کہ جس کمرے میں رہتا ہوں وہ زیرِ آب آتا ہے
تری محفل میں سنتے ہیں اسی کی آمد آمد ہے
وہ جس کی دید کو ہر آدمی بے تاب آتا ہے
شناساؤں نے گو ترکِ تعلق کر لیا مجھ سے
مرے حسنِ غزل کو دیکھنے مہتاب آتا ہے
امیرِ شہر سے پوچھو کہ کتنے مر چکے اب تک
وہ ہر اک بے گنہ کو خود زمیں میں داب آتا ہے
وہ نکلا مے کدے سے مسندِ ارشاد کا والی
گلی کے چھوکرے کہتے ہیں عزّت یاب آتا ہے
ادھر تفریط اتنی ہے کہ تن کو ڈھانپنا مشکل
ادھر کتّوں کی آلائش کو بھی کمخاب آتا ہے
بچاری ڈھانپتی رہتی ہے تن کے خاص حصّوں کو
مگر ہر آنکھ سے بہتا ہؤا سیلاب آتا ہے
مُحبّت وہ سمُندر ہے جہاں کی ہر ادا اپنی
تلاطم ہو نہ ہو ہر موڑ پر گرداب آتا ہے
بی۳

0
67