رو رو کے اپنے آپ کو ہلکان کر لیا
رنج و مِحن کو زیست کا عنوان کر لیا
یہ بھی توارتقا ہے مرے ناقدِ حضور
فارغ خطی نے خاک کو انسان کر لیا
گھر سے چلے تو عزّت و تکریم سے چلے
اِس عشقِ نامراد نے دربان کر لیا
جب سے تکلّفات کی چادر اتار دی
عُمرِ رواں کو باخدا آسان کر لیا
اے دوست تو نے بے سبب جانا مجھے رقیب
انجان پن میں خود کو بدگمان کر لیا
جب کثرتِ رنجور سے رستہ نہ مل سکا
ماؤں کی آہ و زاری نے آسان کر لیا
عجز و فروتنی نے کیا حال وہ امید
لگتا ہے اپنے آپ کو ڈھلوان کر لیا

0
32