رو رو کے اپنے آپ کو ہلکان کر لیا |
رنج و مِحن کو زیست کا عنوان کر لیا |
یہ بھی توارتقا ہے مرے ناقدِ حضور |
فارغ خطی نے خاک کو انسان کر لیا |
گھر سے چلے تو عزّت و تکریم سے چلے |
اِس عشقِ نامراد نے دربان کر لیا |
جب سے تکلّفات کی چادر اتار دی |
عُمرِ رواں کو باخدا آسان کر لیا |
اے دوست تو نے بے سبب جانا مجھے رقیب |
انجان پن میں خود کو بدگمان کر لیا |
جب کثرتِ رنجور سے رستہ نہ مل سکا |
ماؤں کی آہ و زاری نے آسان کر لیا |
عجز و فروتنی نے کیا حال وہ امید |
لگتا ہے اپنے آپ کو ڈھلوان کر لیا |
معلومات