تجھ کو پا کر بھی مرے غم کا مداوا نہ ہؤا
چاند پھر چاند تھا اب کے بھی ستارہ نہ ہؤا
مَیں نے ہر بار جفاؤں کا صلہ پیار دیا
بحر کو بحر ہی رہنا تھا کنارہ نہ ہؤا
ان گنت سجدے کئے دامنِ دل چاک کیا
سختیاں بھوک کی جھیلیں پہ گزارا نہ ہؤا
آنکھ جھپکی نہ کبھی جب بھی ملاقات ہوئی
آج کیا بات تھی تکنا بھی گوارا نہ ہؤا
بیوفاؤں میں ملا تمغۂ جُرّات اس کو
کب ہؤا تھا وہ کسی کا جو ہمارا نہ ہؤا
ایسی چلمن کو لگے آگ کہ ہٹتی ہی نہیں
منتظر بیٹھا تھا کوئی پہ اشارہ نہ ہؤا
روز مرتے ہیں فلسطین میں مظلوم عوام
قاتل بیچارے ہیں مقتول بچارہ نہ ہؤا
دوگلے پن میں بھی مغرب کا کوئی ثانی نہیں
ایسے ماہر ہیں کبھی ان کو خسارہ نہ ہؤا
دل کی باتوں کو سدا دل میں ہی رکھّا ہے امید
آج کہنے کا ارادہ تھا پہ یارا نہ ہؤا

0
26