سر فروشی کیا ہے مجھ کو کاش سمجھائے کوئی |
سر کٹانے کی تمنّا میں نہ مر جائے کوئی |
ٹھوکریں کھا کھا کے اب آخر سنبھلنا آ گیا |
کوئی چارہ گر نہیں ہے راہ بتلائے کوئی |
تیرے حِصّے کا جنوں بھی مجھ کو ہی بخشا گیا |
ان پری چہروں سے یارب کیوں نہ گھبرائے کوئی |
وہ مراسم ہیں نہ اب وہ شوق نہ جذبِ جنوں |
پھر یونہی خوابوں میں آ کر اب نہ تڑپائے کوئی |
غاصبوں نے لے لیا معتوب تکتا رہ گیا |
شرم اُس کو چاہئے تھی اور شرمائے کوئی |
چھوڑ دو قاتل کو جج نے فیصلہ صادر کیا |
ایسا بھی یارب کبھی ہو گا نہ کج رائے کوئی |
واللہ کیا منصب ہے اور کیا شوق ہیں سردار کے |
بر سرِ محفل کہا لا دے سری پائے کوئی |
اب بدلنے کو ہیں دستورِ زمانہ سُن لیں وہ |
آسمانوں سے ندا ہے ظُلم نہ ڈھائے کوئی |
کل عجب اعلان قبرستاں میں مُردوں نے کیا |
کہہ دو انسانوں سے مُردوں سے نہ گھبرائے کوئی |
شعر و نغمہ رمز و ایما سب ترے اوصاف ہیں |
گر فراز ہوتے تو کہتے زُلف لہرائے کوئی |
دوست کہتے ہیں مجھے امید چھوڑیں شاعری |
میرا کہنا ہے سخنور کو نہ سمجھائے کوئی |
معلومات