اس مُلکِ پُر آشوب کا دستور کہاں ہے
سب ہمسرِ مُوسیٰ ہیں مگر طُور کہاں ہے
دعویٰ ہے کہ تُم عاشقِ جانباز ہو لیکن
غافل تری زنبیل میں منصور کہاں ہے
جس کے لئے مُلّا نے کئے سجدے ہزاروں
اب پُوچھتا پھرتا ہے مری حُور کہاں ہے
ہر بات مکمّل ہے تو ہر راز ہے افشا
منصوصِ مِن اللہ ہے یہ مستور کہاں ہے
گر اپنے تعیشّ سے تجھے وقت ملے تو
اے کاش کبھی پوچھ لو مزدور کہاں ہے
شاید کبھی مِل جائے کسی راہ میں امید
گمنام ہے ناکام ہے مشہور کہاں ہے

6
84
واااہ وااااہ کیا خؤبصورت مطلعہ ہے

0
جزاک اللہ زیدی صاحب

منصؤصِ من اللہ ہے یہ مستور کہاں ہے
بہت اعلی

0
جزاک اللہ

0
بہت عمدہ غزل

0
پسند کے لئے شکریہ

0