یہاں انصاف بِکتا ہے یہاں قانون بکتا ہے
یہاں زندہ بھی بکتا ہے یہاں مدفون بکتا ہے
یہاں ہر رات لاکھوں عورتیں نیلام ہوتی ہیں
یہ وہ دھندا ہے جو ہر چوک پر پرچون بکتا ہے
یہ ایسا دیس ہے لوگو جہاں ہر کام جائز ہے
یہاں سب سے بڑا ڈاکو بڑے منصب پہ فائز ہے
جلا دو جاتی عُمرہ کے در و دیوار اے لوگو
گرا دو پھونک ڈالو ظلم کی سرکار اے لوگو
گھسیٹو گلیوں میں لا کر سرے پیلس کے سیٹھوں کو
مرو مارو چلاؤ خنجر و تلوار اے لوگو
سبھی ظالم ہمارے دیس کے مختار بن بیٹھے
طلسمی گفتگُو سے رام کے اوتار بن بیٹھے
بڑی مشکل میں ہے اس دیس کی کشتی یقیں کر لو
بچانی ہے تو آؤ آج ہی فوراً یہیں کر لو
وگرنہ کچھ نہ رہ پائے گا ہر جانب قیامت ہے
شریفے دوڑ جائیں گے جہاں انکی اقامت ہے
بلاول کو بچانے آئیں گے غدّار مِلّت کے
بہت کچھ سہہ چکے ہم لوگ باقی ان کی شامت ہے
مرا منصب بچانا ہے اگر تُم بچنا چاہو تو
مری تحریر میں جھانکو مرے دل میں سماؤ تو
دعا جو نُوح نے کی تھی وہی دہرائے جگ سارا
رَبَّنا لا تزِ دِالظالِمینَ اِلاّ تَبارا

3
92
بہت خوب، خواجہ صاحب! کاش میرے پاس "مرے دل میں سماؤ تو" والے مصرعے کا وزن پورا کرنے کیلیئے کوئی مشورہ ہوتا۔ باقی خیال اور خیال کو شاعری میں ڈھالنے والے مصرعوں کے خد و خال، کمال ہیں۔

0
جزاک اللہ

0
ابتداً مَیں نے یہاں ‘ مرے نزدیک آؤ تو ‘ لکھا تھا جو وزن میں بھی ٹھیک تھا مگر مجھے کچھ اتنا موزوں نہیں لگا اسلئے تبدیل کر دیا دراصل میرے نزدیک الفاظ کی معنوی حیثیت اوزان سے کہیں مقدّم ہے تاہم اگر دونو ٹھیک ہوں تو سونے پر سہاگہ ہے ویسے مَیں نے اکثر بڑے شعراء کو محض اوزان کی بندش سے ماورا پایا ہے