جس طرح بھی رہے، عشق زندہ رہے
جسم مرتا مرے ، عشق زندہ رہے
کچھ ملولِ شکایت کہ ہم ہیں ابھی
دل گرفتہ ہوۓ ،عشق زندہ رہے
آج بازار میں رونقِ خاص ہے
جلوہ کیا وہ کرے، عشق زندہ رہے
بر سرِ خاک راہ، اک فقط میری چاہ
اب اٹھے یا گرے، عشق زندہ رہے
آس میں ہم ملن کی سوۓ ہیں کہاں؟
چاک داماں اٹھے، عشق زندہ رہے
کیا توقع رکھوں کاشفِ یار سے
عشق سے وہ ڈرے، عشق زندہ رہے
شاعر : کا شف علی عباس

58