دو گھڑ ی ہی سہی میرا ساتھ تو دو
شکار عشق ہوں میں ذرا ہاتھ تو دو
سیاروں کی چالیں ستاروں کی راہیں
سب بتاتا ہوں جی، ذرا ہاتھ تو دو
ننھے منھے کومل نازک کہ دل آ گیا
بس چومنا چاہتا ہوں ذرا ہاتھ تو دو
مبتلا کر دیا کمبختوں نے مستی و ہیجان میں
اب اور نہیں ہوتا انتظار ذرا ہاتھ تو دو
کاشف تم کچھ کچھ منٹو بن چکے ہو کیا ؟
منٹو کو بھی پیچھے چھوڑ دوں، ذرا ہاتھ تو دو
شاعر ہاتھ : کاشف علی عبّاس

0
98