کیی سو برس پہلے جاپانی  بمریری کے عہد حکومت میں ایک نوجوان سمورائی یعنی جنگجو جس کا نام تمودا تھا  ، ایکدن لارڈ آف نوٹو کے دربار میں ملازمت کے لیے آیا- وہ قوی ہیکل جسامت کا  مالک  بیحد خو شرو پر صنعت نوجوان تھا -خوبصورتی کیی سو برس پہلے جاپانی بمریری کے عہد حکومت میں ایک نوجوان سمورائی یعنی جنگجو جس کا نام تمودا تھا ، ایکدن لارڈ آف نوٹو کے دربار میں ملازمت کے لیے آیا- وہ قوی ہیکل جسامت کا مالک بیحد خو شرو پر صنعت نوجوان تھا -خوبصورتی کے ساتھ ساتھ وہ بیحد بہادر اور وفا دار بھی تھا - لارڈ آف نوٹو اس سے بیحد متاثر ہوا اور اسے اپنے دربار میں ملازمت دے دی - چند ہی مہینوں میں تمودا نے اپنی قابلیت اور ہنر کا سکا ہر ایک بَثمول لارڈ آف نوٹو پر جما دیا - وہ جنگی میدان کے ساتھ ساتھ صاحب علم کا ماہر بھی ثابت ہوا - پھر ایک دن لارڈ آف نوٹو نے اسے ایک اہم مہم پر بھیجا ہماری کہانی اسی مہم سے شروع ہوتی ہے ...یہ مہم اسے لارڈ آف کیٹو جو ملحقہ ریاست کا بادشاہ تھا ، کی طرف پیغام رسانی پر لے جاتی ہے - تمودا کو یہ خبر نا تھی کہ بظاھر انتہائی سادہ لگنے والی یہ مہم اس کی آخری مہم ثابت ہو گی، موت کی وادیوں سے انجان تمودا اپنے مالک کا پیغام لے کر لارڈ آف کیٹو کی ریاست کی جانب سفر کرنے نکل پڑااس کے ساتھ سامان سفر کے طور پر کچھ خشک گوشت، جو کی روٹی اور سرکہ تھا یہ سب اس نے خرجین میں ڈال لیا اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر عازم منزل ہوا ۔اسے سختی سے تاکید کی گئی تھی کہ چاہے کچھ بھی ہو وہ ہر قیمت پر لارڈ آف کیٹو کو لارڈ آف ناٹو کا اہم سندیسہ پہنچا کر ہی دم لے گا ۔۔۔جونہی دن کا آغاز ہوا ہلکی سی برف باری اس کی منتظر تھی ۔اردگرد سب پگڈ نڈیاں اور راستے آہستہ آہستہ برف سے ڈھک چکے تھے- تمودا کچھ پریشان ضرور ہوا وہ پوری کوشش کے باوجود تیزی سے سفر نہ کر رہا تھا ۔۔۔گھوڑے کے پاؤں اب برف میں دھنسنے لگے ۔ ارد گرد کا منظر کوئی طلسمی منظر لگ رہا تھا ہر طرف برگ سفید تھی ہر چیز نے برف کی جیسے چادر اوڑھ لی ہو تبھی اس دھند لکے میں اسے وہ نظر آیا ۔۔۔وہ ایک سبز درخت تھا۔۔۔گرین ولو *جس پر برف پڑ تو رہی تھی مگر اس کے سبز رنگ میں مدغم ہو رہی تھی ۔ جیسے وہ برف سے مبرا ہو رہا ہو ۔۔۔تمودا حیرت سے اسے تکتا رہا پھر سڑک چھوڑ کر وہ بے ساختہ اس گرین ولو کی طرف بڑھنے لگا ۔۔۔یہ ایک چھوٹی سے پہاڑی پر تھا جونہی وہ گرین ولو کے قریب پہنچا ۔۔۔بہادر سمورائی تمودہ چونک گیا کیوں کہ وہاں ایک خستہ سا جھونپڑا بھی موجود تھا ، جیسے ابھی ابھی تخلیق ہوا ہو جس کا کواڑ لکڑی کا تھا تمودا اس ویرانے میں اس جھونپڑے کی موجودگی سے اچنبھے میں پڑ گیا۔ اس کی چھٹی حس مسلسل خطرے کا الارم بجا رہی تھی کچھ عجیب سی بے چینی تھی -بھوک اور برف باری سے پریشان اس نے بلا سوچے سمجھے اس لکڑی کے دروازے پر دستک دی ۔۔۔پہلی دستک پر ہی دروازہ کھل گیا ۔۔۔ ایک بیحد بوڑھی عورت، جو کمر خم کیۓ ، سفید بالوں سے ڈھکی ، جو زمین تک پہنچ رہے تھے ، بیحد کریہ المنظر جیسے کوئی چڑیل ہو ، وہ سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی۔ * خوش آمدید میرے شہزادے * اس نے بیحد سرد لہجے میں کہا یہ سن کر تمودا کے پورے جسم میں ایک ٹھنڈی خوف کی لہر سی دوڑی ۔اگرچہ وہ بیحد بہادر انسان تھا مگر اس طرح کا مافوق الفطرت ماحول اس کے سر پر سوار ہو رہا تھا اس نے بے اختیار اک جھرجھری سی لی اور وہ وہاں سے رفو چکر ہونے لگا تھا کہ ایک مردانہ آواز نے اسے روک لیا * آئیے جناب ۔۔۔معزز مہمان * یہ ایک بوڑھا شخص تھا ۔۔۔یہ میری بیوی ہے ، اس شخص نے بڑھیا کی طرف اشارہ کیا ۔۔۔اندر تشریف لائیں آپ برف میں تو دفن ہو جائیں گے * آخری جملہ اس نے دانت نکوستے ہوے کہا جس پر بڑھیا بھی زور زور سے ہنسنے لگی یہ بوڑھا بھی دیکھنے میں کسی ڈریکولا جیسا ہی تھا مگر جب تمودا اس ہیبت ناک ماحول سے نکلنے ہی والا تھا تبھی اس نے ان دونو کے پیچھے اپنی زندگی کی سب سے حسین شکل ایک دیوی ایک بیحد خوبصورت لڑکی کو دیکھا جو جھونپڑ ے کے وسط میں کھڑی تھی مگر اس مڈ بھیڑ میں تمودا کسی معمول کی طرح نیند میں چلتا بے اختیار اس لڑکی کو دیکھتا اندر داخل ہو گیا اور بوڑھے نے جلدی سے لکڑی کا دروازہ بند کر دیا ۔ قریب ہی کسی انجان پرندے کی آواز زور زور سے گوبجنے لگی برف باری تیز ہو چکی تھی اور گرین ولو کا درخت اچانک ہلنے لگا جیسے ہولے ہولے رقص کر رہا ہو۔۔۔اب صورتحال کچھ یوں تھی وہ عمل تنویم کی طرح ایسے شخص کی مانند ہو گیا جس پر ہپنا ٹزم ہو چکا ہو بس وہ اس کی خوبصورتی میں محو سا ہو گیا تھا ۔۔بوڑھا اور بڑھیا مسکرا کر ایک دوسرے کو معنی خیز نظروں سے دیکھ رہے تھے جیسے وہ تمودا کی حالت کو سمجھ رھے ہوں *یہ ولو ہے گرین ولو *بوڑھا پراسرار لہجے میں بولا * میری اکلوتی بیٹی * پھر وہ ولو کی طرف متوجہ ہوا *ولو معزز سمورائی کے لئے کھانا لگاؤ * بوڑھے کی بات سن کر تمودا بھی اچانک ہوش میں آیا اور اس نے سر ہلا دیا اگرچہ اس کو لڑکی کے نام کی سمجھ نہ آ رہی تھی کہ ولو تو درخت کو کہتے ہیں اور اس قدر خوفناک ماں باپ کی اتنی حسین بیٹی ۔۔۔بات اس کے حلق سے نا اتر رہی تھی مگر شاید بھوک اور شاید بانس جلنے کی حرارت کی وجہہ سے جو اندر جل رہا تھا اور اسے آسودگی مل رہی تھی تو وہ چپ رہا ۔۔۔ لڑکی کا جسم بھرا بھرا نرم و گداز تھا اگرچہ وہ عام سا لباس پہنے تھی مگر کسی ملكہ سے کم نہ لگ رہی تھی اس کا حسن جادوئی سا لگ رہا تھا سرخ لب صراحی دار گردن ریشمی سنہری زلفیں اور داہنے گال پر تل اس کی خوبصورتی کو بڑھا رہے تھے ۔۔اس کی رنگت شہد کی سی تھی ، تمودا نے اپنے سوکھے لبوں پر زبان پھیری تبھی اس لڑکی نے اسے چاول کی شراب لکڑی کے گلاس میں ڈال کر پیش کی ۔۔۔جب اس نے ولو کو اپنے اس قدر قریب دیکھا تو وہ اس کے حسن سے بوکھلا کر مبہوت سا ہو گیا ۔۔۔ * یہ۔۔" وہ اتنا ہی کہ سکا ۔۔۔*بس اور شراب نہیں چاہیے* اس نے ولو کو دیکھتے بمشکل کہا وہ دل ہی دل میں ایک فیصلہ کر چکاتھا وہ یہ عزم کر چکا تھا کہ وہ اس لڑکی کو اپنی بیوی بنائے گا یہ طے کر نے میں اسے شاید چند مختصر لمحات لگے ...کھانا بیحد سادہ تھا اس نے کھانے کے بعد اپنی دل کی بات ولو کے ماں باپ سے کر دی وہ بری طرح چونکے - وہ دونوں جیسے سوچ میں پڑ گئے - بوڑھے نے کچھ دیر بعد کی خاموشی کے بعد کسی حد تک پرسکون انداز میں اسے کہا کہ وہ لوگ غریب ہیں اور تمودا کے برابر نہیں۔ آخر تمودا لارڈ آف ناٹو کا معزز سمورائ جو تھا- یہ جوڑ ٹھیک نہیں تھا ..'پھر وہ مزید بولا کہ ولو کو آپ بڑے لوگوں کے آداب کا بھی نہیں پتا ' بوڑھا اب سانس لینے کو رکا، اور اپنی جگہ سے کھڑا ہو کر ہاتھ باندھ کر دھیرے سے بولا *اے معزز مہمان ! ایسا ہونا نہ ممکن ہے * اس پر تمودا تیزی سے بولا ، * مگر مجھے اس سے محبت ہو چکی ہے* تمودا نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بلا خوف دل کی بات کہ دی۔ اس دوران ولو خاموشی سے عالم محویت میں اسے دیکھے جا رہی تھی اور وہ اس کی حسین جھیل آنکھوں میں ڈوبتا چلا جا رہا تھا - تبھی اسے لگا جیسے کوئی چیز دھیرے سے جھونپڑ ی میں بلند ہوئی، سفید اور سبز سا کوئی غبار تھا اورپھر سکوت چھا گیا- بڑھیا جو خاموش تھی، اس نے بھی یہی کہا *اے شہزادے یہ کسی کی بیوی نہیں بن سکتی مگر تم ابھی یہی رک جاؤ- برف باری بہت تیز ہے تو آج رات رک جاؤ کل چلے جانا میرے شہزادے* بوڑ ھا جو کافی دیر سے عالم استغراق میں تھا، پھر سے بیدار ہوا اور فیصلہ کن لہجے میں بولا *ہماری خوش نصیبی کہ آپ نے ولو کو چنا،شادی مناسب نہیں ہے تو اسے ایک خادمہ بنا لو، یہ یہاں تمہارا انتظار کرے گی *... تمودا کا دل یہ سن کر مسرت سے اچھلنے لگا اسے اس حسین قربت سے نشہ سا ہونے لگا *بلکل میں کام نپٹا کر ایسی ہی برفباری میں آ کر ولو کو لے جاؤں گا * صبح جب وہ وہاں سے روانہ ہونے لگا تو ولو اس کے پیچھے آنے لگی وہ جانتا تھا اگر اسے لارڈ آف کیٹو کے پاس لے گیا تو وہ اسے چھین لے گا اور اب چھوڑ کر جانے کا اس کا دل نہیں کر رہا تھا اس کے پاؤں بھاری سے ہو رہے تھے وہ آہستہ آہستہ گھوڑے تک پہنچا ولو کے ماں باپ کو وہ جھونپڑے میں رخصت کرآیا تھا- مگر ولو اس کے پیچھے پیچھے ہی آ رہی تھی سو اس سے صبر نہ ہوا، وہ بھی رک کر ولو کو دیکھنے لگا اور پھر لارڈ آف کیٹو اور لارڈ آف ناٹو سب بھولنے لگا اسے محسوس ہوا وہ کہیں نہیں جا سکے گا اس نے بے اختیار ہو کر حسین ولو کی جانب ایک والہانہ انداز میں ہوائی بوسہ پھینکا وہ گھوڑے سے واپس اترا اور چلا کر کہا " میں تم سے محبت کرتا ہوں " اس کی آواز جوش جذبات سے کانپ رہی تھی " ادھر آ جاؤ میرے گلے لگ جاؤ ولو " اس نے اسے بازو میں بھر لیا - لارڈ آف کیٹو کا پیغام اس نے نیچے پھینک دیاتھا - ولو کو لے کر وہ منزل کی مخالف سمت نکل گیا محبت کی جیت ہوئی تھی فرض ہار گیا تھا - ان دونوں نے اسی دن شادی کر لی تھی - تمودا اور ولو مدتوں چھپے رہے - ان کی شادی کے بعد ایک ایک پل بیحد حسین اور خوشگوار تھا - ولو نے اسے اتنی خوشیاں دیں جن کا کبھی اس نے تصور بھی نا کیا تھا - اسے یہ سب ایک خواب سےلگتا تھا - بی نامی جگہ پر اسے رہتے کچھ عرصہ ہو گیا مگر ایک دن اچانک ولو درد سے چیخی اور اس کے سامنے گر کر تڑپنے لگی اس کی باچھوں سے خون بہ رہا تھا ٠ تمودہ بھونچکا ہو گیا مگے اس نے ب حواس پر قابو پاتے ولو کو بجلی کی تیزی سے تھاما تو ولو کرب سے بولی " میں آج مر رہی ہوں " تمودا نے کہا " کیا ہوا تمھیں ؟" میں ابھی جڑ ی بوٹی لاتا ہوں- ولو تم ٹھیک ہو جاؤ گی میری جان ایسی باتیں نہ کرو -" نہیں " ولو نے ہاتھ اٹھا کر سختی سے کہا " میری بات غور سے سنو - تم نے مجھے بہت خوشی دی ہے میں اس محبت میں تمہاری قرضدار ہوں اور تمودا ! یہ سچ ہے کہ میں نے تمھیں دھوکہ دیا- میں تمہاری مجرم ہوں کہ تمہیں سچ نہ بتا سکی ...میں انسان نہیں ہوں بلکہ ولو کا جو درخت تم نے اس دن دیکھا تھا اس میں میری روح قید ہہے اور آج ابھی کسی نے وہ کاٹ دیا ہے مجہے معاف کر دینا " یہ کہ کر اس کی جان نکل گیی اور تمودا بس اس کی بے جان لاش کو تھامے بیٹھا تھا تبھی اس لاش کا رنگ بدلنا شروع ہوا اور پھر وہ ولو کا درخت بننے لگی کچھ دیر بعد وہاں ولو کی لاش کی بجے ولو کے درخت کی ایک کٹی ہوئی شا خ پڑی تھی - تمودا ابھی بھی سکتے میں تھا وہ بوجھل قدموں سے اٹھا اور چل دیا آج تک پھر اس کا پتا نہ چل سکا " یہ کہ کر اس پرسرار پجاری نے لمبی سانس لیتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں - یہ پجاری اسی علاقےمیں ولو کے درخت کے آ س پاس عرصے سے مکین تھا - " اور اس لارڈ ہاف کیٹو کے پیغام کا کیا ہوا" قافلے نے جو بوجہ برفباری یہاں آ کر رکا تھا اس قافلے کے سردار نے پجاری سے پوچھا -٠ " وہ پیغام پیغام ہی رہا - ولو کا پیغام! " پجاری کی سفید داڑھی تھرتھرائی اور وہ آنکھیں بند کر کے پھر مراقبے میں چلا گیا - قافلے والے ابھی تک ورطہ حیرت میں تھے آخر یہ سب کیا سنا تھا اور یہ پجاری سب کیسے جانتا تھا - اگلی صبح پجارکیی سو برس پہلے جاپانی بمریری کے عہد حکومت میں ایک نوجوان سمورائی یعنی جنگجو جس کا نام تمودا تھا ، ایکدن لارڈ آف نوٹو کے دربار میں ملازمت کے لیے آیا- وہ قوی ہیکل جسامت کا مالک بیحد خو شرو پر صنعت نوجوان تھا -خوبصورتی کے ساتھ ساتھ وہ بیحد بہادر اور وفا دار بھی تھا - لارڈ آف نوٹو اس سے بیحد متاثر ہوا اور اسے اپنے دربار میں ملازمت دے دی - چند ہی مہینوں میں تمودا نے اپنی قابلیت اور ہنر کا سکا ہر ایک بَثمول لارڈ آف نوٹو پر جما دیا - وہ جنگی میدان کے ساتھ ساتھ صاحب علم کا ماہر بھی ثابت ہوا - پھر ایک دن لارڈ آف نوٹو نے اسے ایک اہم مہم پر بھیجا ہماری کہانی اسی مہم سے شروع ہوتی ہے ...یہ مہم اسے لارڈ آف کیٹو جو ملحقہ ریاست کا بادشاہ تھا ، کی طرف پیغام رسانی پر لے جاتی ہے - تمودا کو یہ خبر نا تھی کہ بظاھر انتہائی سادہ لگنے والی یہ مہم اس کی آخری مہم ثابت ہو گی، موت کی وادیوں سے انجان تمودا اپنے مالک کا پیغام لے کر لارڈ آف کیٹو کی ریاست کی جانب سفر کرنے نکل پڑااس کے ساتھ سامان سفر کے طور پر کچھ خشک گوشت، جو کی روٹی اور سرکہ تھا یہ سب اس نے خرجین میں ڈال لیا اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر عازم منزل ہوا ۔اسے سختی سے تاکید کی گئی تھی کہ چاہے کچھ بھی ہو وہ ہر قیمت پر لارڈ آف کیٹو کو لارڈ آف ناٹو کا اہم سندیسہ پہنچا کر ہی دم لے گا ۔۔۔جونہی دن کا آغاز ہوا ہلکی سی برف باری اس کی منتظر تھی ۔اردگرد سب پگڈ نڈیاں اور راستے آہستہ آہستہ برف سے ڈھک چکے تھے- تمودا کچھ پریشان ضرور ہوا وہ پوری کوشش کے باوجود تیزی سے سفر نہ کر رہا تھا ۔۔۔گھوڑے کے پاؤں اب برف میں دھنسنے لگے ۔ ارد گرد کا منظر کوئی طلسمی منظر لگ رہا تھا ہر طرف برگ سفید تھی ہر چیز نے برف کی جیسے چادر اوڑھ لی ہو تبھی اس دھند لکے میں اسے وہ نظر آیا ۔۔۔وہ ایک سبز درخت تھا۔۔۔گرین ولو *جس پر برف پڑ تو رہی تھی مگر اس کے سبز رنگ میں مدغم ہو رہی تھی ۔ جیسے وہ برف سے مبرا ہو رہا ہو ۔۔۔تمودا حیرت سے اسے تکتا رہا پھر سڑک چھوڑ کر وہ بے ساختہ اس گرین ولو کی طرف بڑھنے لگا ۔۔۔یہ ایک چھوٹی سے پہاڑی پر تھا جونہی وہ گرین ولو کے قریب پہنچا ۔۔۔بہادر سمورائی تمودہ چونک گیا کیوں کہ وہاں ایک خستہ سا جھونپڑا بھی موجود تھا ، جیسے ابھی ابھی تخلیق ہوا ہو جس کا کواڑ لکڑی کا تھا تمودا اس ویرانے میں اس جھونپڑے کی موجودگی سے اچنبھے میں پڑ گیا۔ اس کی چھٹی حس مسلسل خطرے کا الارم بجا رہی تھی کچھ عجیب سی بے چینی تھی -بھوک اور برف باری سے پریشان اس نے بلا سوچے سمجھے اس لکڑی کے دروازے پر دستک دی ۔۔۔پہلی دستک پر ہی دروازہ کھل گیا ۔۔۔ ایک بیحد بوڑھی عورت، جو کمر خم کیۓ ، سفید بالوں سے ڈھکی ، جو زمین تک پہنچ رہے تھے ، بیحد کریہ المنظر جیسے کوئی چڑیل ہو ، وہ سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی۔ * خوش آمدید میرے شہزادے * اس نے بیحد سرد لہجے میں کہا یہ سن کر تمودا کے پورے جسم میں ایک ٹھنڈی خوف کی لہر سی دوڑی ۔اگرچہ وہ بیحد بہادر انسان تھا مگر اس طرح کا مافوق الفطرت ماحول اس کے سر پر سوار ہو رہا تھا اس نے بے اختیار اک جھرجھری سی لی اور وہ وہاں سے رفو چکر ہونے لگا تھا کہ ایک مردانہ آواز نے اسے روک لیا * آئیے جناب ۔۔۔معزز مہمان * یہ ایک بوڑھا شخص تھا ۔۔۔یہ میری بیوی ہے ، اس شخص نے بڑھیا کی طرف اشارہ کیا ۔۔۔اندر تشریف لائیں آپ برف میں تو دفن ہو جائیں گے * آخری جملہ اس نے دانت نکوستے ہوے کہا جس پر بڑھیا بھی زور زور سے ہنسنے لگی یہ بوڑھا بھی دیکھنے میں کسی ڈریکولا جیسا ہی تھا مگر جب تمودا اس ہیبت ناک ماحول سے نکلنے ہی والا تھا تبھی اس نے ان دونو کے پیچھے اپنی زندگی کی سب سے حسین شکل ایک دیوی ایک بیحد خوبصورت لڑکی کو دیکھا جو جھونپڑ ے کے وسط میں کھڑی تھی مگر اس مڈ بھیڑ میں تمودا کسی معمول کی طرح نیند میں چلتا بے اختیار اس لڑکی کو دیکھتا اندر داخل ہو گیا اور بوڑھے نے جلدی سے لکڑی کا دروازہ بند کر دیا ۔ قریب ہی کسی انجان پرندے کی آواز زور زور سے گوبجنے لگی برف باری تیز ہو چکی تھی اور گرین ولو کا درخت اچانک ہلنے لگا جیسے ہولے ہولے رقص کر رہا ہو۔۔۔اب صورتحال کچھ یوں تھی وہ عمل تنویم کی طرح ایسے شخص کی مانند ہو گیا جس پر ہپنا ٹزم ہو چکا ہو بس وہ اس کی خوبصورتی میں محو سا ہو گیا تھا ۔۔بوڑھا اور بڑھیا مسکرا کر ایک دوسرے کو معنی خیز نظروں سے دیکھ رہے تھے جیسے وہ تمودا کی حالت کو سمجھ رھے ہوں *یہ ولو ہے گرین ولو *بوڑھا پراسرار لہجے میں بولا * میری اکلوتی بیٹی * پھر وہ ولو کی طرف متوجہ ہوا *ولو معزز سمورائی کے لئے کھانا لگاؤ * بوڑھے کی بات سن کر تمودا بھی اچانک ہوش میں آیا اور اس نے سر ہلا دیا اگرچہ اس کو لڑکی کے نام کی سمجھ نہ آ رہی تھی کہ ولو تو درخت کو کہتے ہیں اور اس قدر خوفناک ماں باپ کی اتنی حسین بیٹی ۔۔۔بات اس کے حلق سے نا اتر رہی تھی مگر شاید بھوک اور شاید بانس جلنے کی حرارت کی وجہہ سے جو اندر جل رہا تھا اور اسے آسودگی مل رہی تھی تو وہ چپ رہا ۔۔۔ لڑکی کا جسم بھرا بھرا نرم و گداز تھا اگرچہ وہ عام سا لباس پہنے تھی مگر کسی ملكہ سے کم نہ لگ رہی تھی اس کا حسن جادوئی سا لگ رہا تھا سرخ لب صراحی دار گردن ریشمی سنہری زلفیں اور داہنے گال پر تل اس کی خوبصورتی کو بڑھا رہے تھے ۔۔اس کی رنگت شہد کی سی تھی ، تمودا نے اپنے سوکھے لبوں پر زبان پھیری تبھی اس لڑکی نے اسے چاول کی شراب لکڑی کے گلاس میں ڈال کر پیش کی ۔۔۔جب اس نے ولو کو اپنے اس قدر قریب دیکھا تو وہ اس کے حسن سے بوکھلا کر مبہوت سا ہو گیا ۔۔۔ * یہ۔۔" وہ اتنا ہی کہ سکا ۔۔۔*بس اور شراب نہیں چاہیے* اس نے ولو کو دیکھتے بمشکل کہا وہ دل ہی دل میں ایک فیصلہ کر چکاتھا وہ یہ عزم کر چکا تھا کہ وہ اس لڑکی کو اپنی بیوی بنائے گا یہ طے کر نے میں اسے شاید چند مختصر لمحات لگے ...کھانا بیحد سادہ تھا اس نے کھانے کے بعد اپنی دل کی بات ولو کے ماں باپ سے کر دی وہ بری طرح چونکے - وہ دونوں جیسے سوچ میں پڑ گئے - بوڑھے نے کچھ دیر بعد کی خاموشی کے بعد کسی حد تک پرسکون انداز میں اسے کہا کہ وہ لوگ غریب ہیں اور تمودا کے برابر نہیں۔ آخر تمودا لارڈ آف ناٹو کا معزز سمورائ جو تھا- یہ جوڑ ٹھیک نہیں تھا ..'پھر وہ مزید بولا کہ ولو کو آپ بڑے لوگوں کے آداب کا بھی نہیں پتا ' بوڑھا اب سانس لینے کو رکا، اور اپنی جگہ سے کھڑا ہو کر ہاتھ باندھ کر دھیرے سے بولا *اے معزز مہمان ! ایسا ہونا نہ ممکن ہے * اس پر تمودا تیزی سے بولا ، * مگر مجھے اس سے محبت ہو چکی ہے* تمودا نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بلا خوف دل کی بات کہ دی۔ اس دوران ولو خاموشی سے عالم محویت میں اسے دیکھے جا رہی تھی اور وہ اس کی حسین جھیل آنکھوں میں ڈوبتا چلا جا رہا تھا - تبھی اسے لگا جیسے کوئی چیز دھیرے سے جھونپڑ ی میں بلند ہوئی، سفید اور سبز سا کوئی غبار تھا اورپھر سکوت چھا گیا- بڑھیا جو خاموش تھی، اس نے بھی یہی کہا *اے شہزادے یہ کسی کی بیوی نہیں بن سکتی مگر تم ابھی یہی رک جاؤ- برف باری بہت تیز ہے تو آج رات رک جاؤ کل چلے جانا میرے شہزادے* بوڑ ھا جو کافی دیر سے عالم استغراق میں تھا، پھر سے بیدار ہوا اور فیصلہ کن لہجے میں بولا *ہماری خوش نصیبی کہ آپ نے ولو کو چنا،شادی مناسب نہیں ہے تو اسے ایک خادمہ بنا لو، یہ یہاں تمہارا انتظار کرے گی *... تمودا کا دل یہ سن کر مسرت سے اچھلنے لگا اسے اس حسین قربت سے نشہ سا ہونے لگا *بلکل میں کام نپٹا کر ایسی ہی برفباری میں آ کر ولو کو لے جاؤں گا * صبح جب وہ وہاں سے روانہ ہونے لگا تو ولو اس کے پیچھے آنے لگی وہ جانتا تھا اگر اسے لارڈ آف کیٹو کے پاس لے گیا تو وہ اسے چھین لے گا اور اب چھوڑ کر جانے کا اس کا دل نہیں کر رہا تھا اس کے پاؤں بھاری سے ہو رہے تھے وہ آہستہ آہستہ گھوڑے تک پہنچا ولو کے ماں باپ کو وہ جھونپڑے میں رخصت کرآیا تھا- مگر ولو اس کے پیچھے پیچھے ہی آ رہی تھی سو اس سے صبر نہ ہوا، وہ بھی رک کر ولو کو دیکھنے لگا اور پھر لارڈ آف کیٹو اور لارڈ آف ناٹو سب بھولنے لگا اسے محسوس ہوا وہ کہیں نہیں جا سکے گا اس نے بے اختیار ہو کر حسین ولو کی جانب ایک والہانہ انداز میں ہوائی بوسہ پھینکا وہ گھوڑے سے واپس اترا اور چلا کر کہا " میں تم سے محبت کرتا ہوں " اس کی آواز جوش جذبات سے کانپ رہی تھی " ادھر آ جاؤ میرے گلے لگ جاؤ ولو " اس نے اسے بازو میں بھر لیا - لارڈ آف کیٹو کا پیغام اس نے نیچے پھینک دیاتھا - ولو کو لے کر وہ منزل کی مخالف سمت نکل گیا محبت کی جیت ہوئی تھی فرض ہار گیا تھا - ان دونوں نے اسی دن شادی کر لی تھی - تمودا اور ولو مدتوں چھپے رہے - ان کی شادی کے بعد ایک ایک پل بیحد حسین اور خوشگوار تھا - ولو نے اسے اتنی خوشیاں دیں جن کا کبھی اس نے تصور بھی نا کیا تھا - اسے یہ سب ایک خواب سےلگتا تھا - بی نامی جگہ پر اسے رہتے کچھ عرصہ ہو گیا مگر ایک دن اچانک ولو درد سے چیخی اور اس کے سامنے گر کر تڑپنے لگی اس کی باچھوں سے خون بہ رہا تھا ٠ تمودہ بھونچکا ہو گیا مگے اس نے ب حواس پر قابو پاتے ولو کو بجلی کی تیزی سے تھاما تو ولو کرب سے بولی " میں آج مر رہی ہوں " تمودا نے کہا " کیا ہوا تمھیں ؟" میں ابھی جڑ ی بوٹی لاتا ہوں- ولو تم ٹھیک ہو جاؤ گی میری جان ایسی باتیں نہ کرو -" نہیں " ولو نے ہاتھ اٹھا کر سختی سے کہا " میری بات غور سے سنو - تم نے مجھے بہت خوشی دی ہے میں اس محبت میں تمہاری قرضدار ہوں اور تمودا ! یہ سچ ہے کہ میں نے تمھیں دھوکہ دیا- میں تمہاری مجرم ہوں کہ تمہیں سچ نہ بتا سکی ...میں انسان نہیں ہوں بلکہ ولو کا جو درخت تم نے اس دن دیکھا تھا اس میں میری روح قید ہہے اور آج ابھی کسی نے وہ کاٹ دیا ہے مجہے معاف کر دینا " یہ کہ کر اس کی جان نکل گیی اور تمودا بس اس کی بے جان لاش کو تھامے بیٹھا تھا تبھی اس لاش کا رنگ بدلنا شروع ہوا اور پھر وہ ولو کا درخت بننے لگی کچھ دیر بعد وہاں ولو کی لاش کی بجے ولو کے درخت کی ایک کٹی ہوئی شا خ پڑی تھی - تمودا ابھی بھی سکتے میں تھا وہ بوجھل قدموں سے اٹھا اور چل دیا آج تک پھر اس کا پتا نہ چل سکا " یہ کہ کر اس پرسرار پجاری نے لمبی سانس لیتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں - یہ پجاری اسی علاقےمیں ولو کے درخت کے آ س پاس عرصے سے مکین تھا - " اور اس لارڈ ہاف کیٹو کے پیغام کا کیا ہوا" قافلے نے جو بوجہ برفباری یہاں آ کر رکا تھا اس قافلے کے سردار نے پجاری سے پوچھا -٠ " وہ پیغام پیغام ہی رہا - ولو کا پیغام! " پجاری کی سفید داڑھی تھرتھرائی اور وہ آنکھیں بند کر کے پھر مراقبے میں چلا گیا - قافلے والے ابھی تک ورطہ حیرت میں تھے آخر یہ سب کیا سنا تھا اور یہ پجاری سب کیسے جانتا تھا - اگلی صبح پجاری کی لاش اسی ولو کے درخت کے پاس ملی کہ جہاں قافلے والوں نے اسے ایک شب پہلے دیکھا تھا - اس کے ہاتھ میں ایک مشکی رنگ کا چمڑے کا تھیلا تھا جس پر لارڈ آف کیٹو لکھا تھا تحریر : کاشف علی عبّاس (جاپانی ادب سے ماخوز ) ساتھ ساتھ وہ بیحد بہادر اور وفا دار بھی تھا - لارڈ آف نوٹو اس سے بیحد متاثر ہوا اور اسے اپنے دربار میں ملازمت دے دی - چند ہی مہینوں میں  تمودا نے اپنی قابلیت اور ہنر کا سکا ہر ایک بَثمول لارڈ آف نوٹو پر جما دیا - وہ جنگی میدان کے ساتھ ساتھ صاحب علم کا ماہر بھی ثابت ہوا - پھر ایک دن لارڈ آف نوٹو نے اسے ایک اہم مہم پر بھیجا ہماری کہانی اسی مہم سے شروع ہوتی ہے ...یہ مہم اسے لارڈ آف کیٹو جو ملحقہ  ریاست کا بادشاہ تھا ، کی طرف پیغام رسانی پر لے جاتی ہے -  تمودا کو یہ خبر نا تھی کہ بظاھر انتہائی سادہ لگنے والی یہ مہم اس کی آخری مہم ثابت ہو گی، موت کی وادیوں سے انجان تمودا اپنے مالک کا پیغام لے کر لارڈ آف کیٹو کی ریاست کی جانب سفر کرنے نکل پڑااس کے ساتھ سامان سفر کے طور پر کچھ خشک گوشت، جو کی روٹی اور سرکہ تھا یہ   سب اس نے خرجین میں ڈال لیا  اور اپنے گھوڑے  پر سوار ہو کر عازم منزل ہوا  ۔اسے سختی سے  تاکید کی گئی تھی کہ چاہے کچھ بھی ہو وہ ہر قیمت پر لارڈ آف کیٹو کو لارڈ آف ناٹو کا اہم سندیسہ پہنچا کر ہی دم لے گا ۔۔۔جونہی دن کا آغاز ہوا ہلکی سی برف باری اس کی منتظر تھی ۔اردگرد سب  پگڈ نڈیاں اور راستے آہستہ آہستہ برف سے ڈھک چکے تھے- تمودا کچھ  پریشان ضرور  ہوا وہ پوری کوشش کے باوجود تیزی سے سفر نہ کر رہا تھا ۔۔۔گھوڑے کے پاؤں اب برف میں دھنسنے لگے ۔ ارد گرد کا منظر کوئی طلسمی منظر لگ رہا تھا ہر طرف برگ سفید تھی ہر چیز نے برف کی جیسے چادر اوڑھ لی ہو تبھی اس دھند لکے میں اسے وہ نظر آیا ۔۔۔وہ ایک سبز درخت تھا۔۔۔گرین ولو *جس پر برف پڑ تو رہی تھی مگر اس کے سبز رنگ میں مدغم ہو رہی تھی ۔ جیسے وہ برف سے مبرا ہو رہا ہو ۔۔۔تمودا حیرت سے اسے تکتا رہا پھر سڑک چھوڑ کر وہ بے ساختہ اس گرین ولو کی طرف بڑھنے لگا ۔۔۔یہ ایک چھوٹی سے پہاڑی پر تھا جونہی وہ گرین ولو کے قریب پہنچا ۔۔۔بہادر سمورائی تمودہ چونک گیا کیوں کہ وہاں ایک خستہ سا جھونپڑا  بھی موجود تھا ، جیسے ابھی ابھی تخلیق ہوا ہو جس کا کواڑ  لکڑی کا تھا تمودا اس ویرانے میں اس جھونپڑے کی موجودگی سے اچنبھے میں پڑ گیا۔ اس کی چھٹی حس مسلسل خطرے کا الارم بجا رہی تھی کچھ عجیب سی بے چینی تھی  -بھوک اور برف باری سے پریشان اس نے بلا سوچے سمجھے اس لکڑی کے دروازے پر دستک دی ۔۔۔پہلی دستک پر ہی دروازہ کھل گیا ۔۔۔

ایک بیحد بوڑھی عورت، جو کمر خم کیۓ  ، سفید بالوں سے ڈھکی ، جو زمین تک پہنچ رہے تھے ، بیحد کریہ المنظر جیسے کوئی چڑیل ہو ، وہ  سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی۔ 

* خوش آمدید میرے شہزادے * اس نے بیحد سرد لہجے میں کہا 

یہ سن کر تمودا  کے پورے جسم میں ایک ٹھنڈی  خوف کی لہر سی دوڑی ۔اگرچہ وہ بیحد بہادر انسان تھا مگر اس طرح کا مافوق الفطرت  ماحول اس کے سر پر سوار ہو رہا تھا اس نے بے اختیار اک جھرجھری سی لی اور وہ وہاں سے رفو چکر ہونے لگا تھا کہ ایک مردانہ آواز نے اسے روک لیا 

* آئیے جناب ۔۔۔معزز مہمان * یہ ایک بوڑھا  شخص تھا ۔۔۔یہ میری بیوی ہے ، اس شخص نے بڑھیا  کی طرف اشارہ کیا ۔۔۔اندر تشریف لائیں آپ برف میں تو دفن ہو جائیں گے * آخری جملہ اس نے دانت نکوستے ہوے کہا جس پر  بڑھیا بھی زور زور سے ہنسنے لگی یہ بوڑھا بھی دیکھنے میں کسی ڈریکولا جیسا ہی تھا مگر جب تمودا اس ہیبت ناک ماحول سے نکلنے ہی والا تھا تبھی اس نے ان دونو کے پیچھے اپنی زندگی کی سب سے حسین شکل ایک دیوی ایک بیحد خوبصورت لڑکی کو دیکھا جو جھونپڑ ے  کے وسط میں کھڑی تھی مگر اس مڈ بھیڑ میں تمودا  کسی معمول کی طرح نیند میں چلتا بے اختیار اس لڑکی کو دیکھتا اندر داخل ہو گیا اور بوڑھے  نے جلدی سے لکڑی کا دروازہ بند کر دیا ۔ قریب ہی کسی انجان  پرندے کی آواز زور زور سے گوبجنے لگی برف باری تیز ہو چکی تھی اور گرین ولو کا درخت اچانک ہلنے لگا جیسے ہولے ہولے رقص کر رہا ہو۔۔۔اب صورتحال کچھ یوں تھی وہ عمل تنویم کی طرح ایسے شخص کی مانند ہو گیا  جس پر ہپنا ٹزم  ہو چکا ہو بس  وہ اس کی خوبصورتی میں محو سا ہو گیا تھا ۔۔بوڑھا اور بڑھیا مسکرا کر ایک دوسرے کو معنی خیز  نظروں سے دیکھ رہے تھے جیسے وہ تمودا کی حالت کو سمجھ رھے ہوں 

*یہ ولو ہے گرین ولو *بوڑھا پراسرار لہجے میں بولا * میری اکلوتی بیٹی *  پھر وہ ولو کی طرف متوجہ ہوا *ولو معزز سمورائی کے لئے کھانا  لگاؤ *

بوڑھے  کی بات سن کر تمودا بھی اچانک ہوش میں آیا اور اس نے سر ہلا دیا اگرچہ اس کو لڑکی کے نام کی سمجھ نہ آ رہی تھی کہ ولو تو درخت کو کہتے ہیں اور اس قدر خوفناک ماں باپ کی اتنی حسین بیٹی ۔۔۔بات اس کے حلق سے نا اتر رہی تھی مگر شاید بھوک اور شاید بانس جلنے  کی حرارت کی وجہہ سے جو اندر جل رہا تھا  اور اسے آسودگی مل رہی تھی تو   وہ چپ رہا ۔۔۔

لڑکی کا جسم بھرا بھرا نرم و گداز تھا اگرچہ وہ عام سا لباس پہنے تھی مگر کسی  ملكہ  سے کم نہ لگ رہی تھی اس کا حسن جادوئی سا لگ رہا تھا سرخ لب صراحی دار گردن ریشمی سنہری  زلفیں اور داہنے گال پر تل اس کی خوبصورتی کو بڑھا رہے تھے ۔۔اس کی رنگت شہد کی سی تھی ، تمودا  نے اپنے سوکھے لبوں پر زبان پھیری  تبھی  اس لڑکی نے اسے چاول کی شراب لکڑی کے گلاس  میں ڈال کر  پیش کی ۔۔۔جب اس نے ولو کو اپنے  اس قدر قریب دیکھا تو وہ اس کے حسن سے  بوکھلا کر مبہوت سا ہو گیا ۔۔۔

* یہ۔۔"  وہ اتنا ہی کہ سکا ۔۔۔*بس اور شراب نہیں چاہیے*  اس نے ولو کو دیکھتے بمشکل کہا وہ دل ہی دل میں ایک  فیصلہ  کر چکاتھا  وہ یہ عزم کر چکا تھا کہ  وہ اس لڑکی کو اپنی بیوی بنائے  گا یہ طے کر نے میں اسے شاید چند مختصر لمحات  لگے ...کھانا بیحد سادہ تھا اس  نے کھانے کے بعد اپنی دل کی بات ولو کے ماں باپ سے کر دی وہ بری طرح چونکے - وہ دونوں جیسے سوچ میں پڑ  گئے - بوڑھے نے  کچھ دیر بعد کی خاموشی کے بعد کسی حد تک پرسکون انداز  میں اسے کہا کہ  وہ لوگ غریب ہیں اور تمودا کے برابر نہیں۔ آخر  تمودا 

  لارڈ آف ناٹو کا معزز سمورائ  جو تھا- یہ جوڑ  ٹھیک نہیں تھا  ..'پھر وہ مزید بولا کہ ولو کو آپ  بڑے  لوگوں کے آداب کا بھی نہیں پتا ' بوڑھا اب  سانس لینے  کو رکا، اور اپنی جگہ سے کھڑا ہو کر ہاتھ باندھ کر دھیرے سے بولا  

*اے معزز مہمان ! ایسا ہونا نہ ممکن ہے *

 اس پر تمودا تیزی سے بولا ،

* مگر  مجھے اس سے محبت ہو چکی ہے* تمودا  نے اس  کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بلا خوف دل کی بات کہ دی۔ اس دوران  ولو خاموشی سے عالم محویت میں  اسے دیکھے جا  رہی تھی اور  وہ اس کی حسین جھیل  آنکھوں میں ڈوبتا چلا جا رہا تھا -

 تبھی اسے لگا جیسے کوئی چیز دھیرے سے جھونپڑ ی میں بلند ہوئی، سفید اور سبز سا کوئی  غبار تھا اورپھر  سکوت چھا گیا- بڑھیا جو خاموش تھی، اس نے بھی یہی کہا  

  *اے شہزادے یہ کسی کی بیوی نہیں بن سکتی مگر تم ابھی یہی رک جاؤ- برف باری بہت  تیز ہے تو آج رات رک جاؤ کل چلے جانا میرے شہزادے*

بوڑ ھا جو کافی دیر سے  عالم استغراق میں تھا، پھر سے بیدار ہوا اور فیصلہ کن لہجے میں بولا 

*ہماری خوش نصیبی کہ آپ  نے ولو کو چنا،شادی مناسب نہیں ہے  تو اسے ایک خادمہ بنا لو، یہ یہاں تمہارا انتظار کرے گی *...  تمودا  کا دل یہ سن کر  مسرت سے اچھلنے لگا اسے اس حسین قربت سے نشہ سا ہونے لگا 

*بلکل میں کام نپٹا کر ایسی ہی برفباری میں آ کر ولو کو لے جاؤں گا *

صبح جب وہ وہاں سے روانہ ہونے لگا تو ولو اس کے  پیچھے آنے لگی وہ جانتا تھا  اگر اسے لارڈ آف کیٹو کے پاس لے گیا تو وہ اسے چھین لے گا اور  اب چھوڑ کر جانے کا اس کا دل نہیں  کر رہا  تھا اس کے پاؤں بھاری سے ہو رہے تھے      وہ آہستہ آہستہ  گھوڑے  تک پہنچا ولو کے ماں  باپ کو وہ جھونپڑے میں رخصت  کرآیا تھا- مگر ولو اس کے پیچھے پیچھے ہی آ رہی تھی سو اس سے صبر نہ ہوا، وہ بھی رک کر ولو کو دیکھنے لگا اور پھر  لارڈ آف کیٹو اور     لارڈ آف ناٹو سب بھولنے لگا اسے محسوس ہوا  وہ کہیں نہیں جا سکے گا اس نے بے اختیار ہو کر حسین ولو کی جانب ایک والہانہ انداز میں ہوائی بوسہ پھینکا وہ  گھوڑے سے واپس اترا اور چلا کر کہا " میں تم سے محبت کرتا ہوں " اس کی آواز جوش جذبات سے کانپ رہی تھی " ادھر آ جاؤ  میرے گلے  لگ جاؤ ولو " اس نے اسے بازو میں بھر لیا - لارڈ آف کیٹو کا پیغام اس نے نیچے پھینک دیاتھا - ولو کو لے کر وہ منزل کی  مخالف سمت نکل گیا محبت کی جیت ہوئی تھی فرض ہار گیا تھا -

 ان دونوں نے اسی دن شادی کر لی تھی - تمودا اور ولو مدتوں چھپے رہے - ان کی شادی کے بعد ایک ایک پل بیحد حسین اور خوشگوار تھا - ولو نے اسے اتنی خوشیاں دیں جن کا  کبھی اس نے تصور بھی نا کیا تھا - اسے یہ سب ایک خواب سےلگتا تھا - بی نامی جگہ پر اسے رہتے کچھ عرصہ  ہو گیا مگر ایک دن اچانک ولو درد سے چیخی اور اس کے سامنے گر کر تڑپنے لگی اس کی باچھوں   سے خون بہ رہا تھا ٠ تمودہ بھونچکا ہو گیا مگے اس  نے ب حواس پر قابو پاتے ولو کو بجلی کی تیزی سے  تھاما تو ولو کرب سے بولی " میں آج مر رہی ہوں  " تمودا  نے کہا " کیا ہوا تمھیں ؟" میں ابھی جڑ ی بوٹی لاتا ہوں- ولو تم ٹھیک ہو جاؤ گی میری جان ایسی باتیں نہ کرو -"

نہیں " ولو نے ہاتھ اٹھا کر سختی سے کہا " میری بات غور سے سنو - تم نے مجھے بہت خوشی  دی ہے میں اس محبت میں تمہاری قرضدار ہوں اور تمودا ! یہ سچ ہے کہ میں نے تمھیں دھوکہ دیا- میں تمہاری مجرم ہوں کہ   تمہیں سچ نہ بتا سکی ...میں انسان نہیں ہوں بلکہ ولو کا جو درخت تم نے اس دن دیکھا تھا اس میں  میری روح قید ہہے اور آج ابھی کسی نے وہ کاٹ دیا ہے مجہے معاف کر دینا " یہ کہ کر اس کی جان نکل گیی اور تمودا بس  اس کی بے جان لاش کو تھامے بیٹھا تھا تبھی اس لاش کا رنگ بدلنا شروع ہوا اور پھر وہ  ولو کا درخت بننے  لگی کچھ دیر بعد وہاں ولو کی لاش کی بجے ولو کے درخت کی ایک کٹی ہوئی شا خ پڑی تھی - تمودا  ابھی بھی سکتے میں تھا وہ بوجھل قدموں سے اٹھا اور چل دیا آج تک پھر اس کا پتا نہ چل سکا "


یہ کہ کر اس پرسرار پجاری نے لمبی سانس لیتے ہوئے آنکھیں بند  کر لیں - یہ پجاری اسی  علاقےمیں ولو کے درخت  کے آ س پاس عرصے سے مکین تھا - 

" اور اس لارڈ ہاف کیٹو کے پیغام کا کیا ہوا" قافلے نے جو بوجہ برفباری یہاں آ کر  رکا تھا اس قافلے کے سردار نے پجاری سے پوچھا -٠ 

" وہ پیغام پیغام ہی رہا - ولو کا پیغام! " پجاری کی سفید داڑھی تھرتھرائی اور وہ آنکھیں بند  کر کے پھر مراقبے میں چلا گیا - قافلے والے  ابھی تک ورطہ حیرت میں تھے آخر یہ سب کیا سنا تھا اور یہ پجاری سب کیسے جانتا تھا - اگلی صبح پجارکیی سو برس پہلے جاپانی بمریری کے عہد حکومت میں ایک نوجوان سمورائی یعنی جنگجو جس کا نام تمودا تھا ، ایکدن لارڈ آف نوٹو کے دربار میں ملازمت کے لیے آیا- وہ قوی ہیکل جسامت کا مالک بیحد خو شرو پر صنعت نوجوان تھا -خوبصورتی کے ساتھ ساتھ وہ بیحد بہادر اور وفا دار بھی تھا - لارڈ آف نوٹو اس سے بیحد متاثر ہوا اور اسے اپنے دربار میں ملازمت دے دی - چند ہی مہینوں میں تمودا نے اپنی قابلیت اور ہنر کا سکا ہر ایک بَثمول لارڈ آف نوٹو پر جما دیا - وہ جنگی میدان کے ساتھ ساتھ صاحب علم کا ماہر بھی ثابت ہوا - پھر ایک دن لارڈ آف نوٹو نے اسے ایک اہم مہم پر بھیجا ہماری کہانی اسی مہم سے شروع ہوتی ہے ...یہ مہم اسے لارڈ آف کیٹو جو ملحقہ ریاست کا بادشاہ تھا ، کی طرف پیغام رسانی پر لے جاتی ہے - تمودا کو یہ خبر نا تھی کہ بظاھر انتہائی سادہ لگنے والی یہ مہم اس کی آخری مہم ثابت ہو گی، موت کی وادیوں سے انجان تمودا اپنے مالک کا پیغام لے کر لارڈ آف کیٹو کی ریاست کی جانب سفر کرنے نکل پڑااس کے ساتھ سامان سفر کے طور پر کچھ خشک گوشت، جو کی روٹی اور سرکہ تھا یہ سب اس نے خرجین میں ڈال لیا اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر عازم منزل ہوا ۔اسے سختی سے تاکید کی گئی تھی کہ چاہے کچھ بھی ہو وہ ہر قیمت پر لارڈ آف کیٹو کو لارڈ آف ناٹو کا اہم سندیسہ پہنچا کر ہی دم لے گا ۔۔۔جونہی دن کا آغاز ہوا ہلکی سی برف باری اس کی منتظر تھی ۔اردگرد سب پگڈ نڈیاں اور راستے آہستہ آہستہ برف سے ڈھک چکے تھے- تمودا کچھ پریشان ضرور ہوا وہ پوری کوشش کے باوجود تیزی سے سفر نہ کر رہا تھا ۔۔۔گھوڑے کے پاؤں اب برف میں دھنسنے لگے ۔ ارد گرد کا منظر کوئی طلسمی منظر لگ رہا تھا ہر طرف برگ سفید تھی ہر چیز نے برف کی جیسے چادر اوڑھ لی ہو تبھی اس دھند لکے میں اسے وہ نظر آیا ۔۔۔وہ ایک سبز درخت تھا۔۔۔گرین ولو *جس پر برف پڑ تو رہی تھی مگر اس کے سبز رنگ میں مدغم ہو رہی تھی ۔ جیسے وہ برف سے مبرا ہو رہا ہو ۔۔۔تمودا حیرت سے اسے تکتا رہا پھر سڑک چھوڑ کر وہ بے ساختہ اس گرین ولو کی طرف بڑھنے لگا ۔۔۔یہ ایک چھوٹی سے پہاڑی پر تھا جونہی وہ گرین ولو کے قریب پہنچا ۔۔۔بہادر سمورائی تمودہ چونک گیا کیوں کہ وہاں ایک خستہ سا جھونپڑا بھی موجود تھا ، جیسے ابھی ابھی تخلیق ہوا ہو جس کا کواڑ لکڑی کا تھا تمودا اس ویرانے میں اس جھونپڑے کی موجودگی سے اچنبھے میں پڑ گیا۔ اس کی چھٹی حس مسلسل خطرے کا الارم بجا رہی تھی کچھ عجیب سی بے چینی تھی -بھوک اور برف باری سے پریشان اس نے بلا سوچے سمجھے اس لکڑی کے دروازے پر دستک دی ۔۔۔پہلی دستک پر ہی دروازہ کھل گیا ۔۔۔ ایک بیحد بوڑھی عورت، جو کمر خم کیۓ ، سفید بالوں سے ڈھکی ، جو زمین تک پہنچ رہے تھے ، بیحد کریہ المنظر جیسے کوئی چڑیل ہو ، وہ سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی۔ * خوش آمدید میرے شہزادے * اس نے بیحد سرد لہجے میں کہا یہ سن کر تمودا کے پورے جسم میں ایک ٹھنڈی خوف کی لہر سی دوڑی ۔اگرچہ وہ بیحد بہادر انسان تھا مگر اس طرح کا مافوق الفطرت ماحول اس کے سر پر سوار ہو رہا تھا اس نے بے اختیار اک جھرجھری سی لی اور وہ وہاں سے رفو چکر ہونے لگا تھا کہ ایک مردانہ آواز نے اسے روک لیا * آئیے جناب ۔۔۔معزز مہمان * یہ ایک بوڑھا شخص تھا ۔۔۔یہ میری بیوی ہے ، اس شخص نے بڑھیا کی طرف اشارہ کیا ۔۔۔اندر تشریف لائیں آپ برف میں تو دفن ہو جائیں گے * آخری جملہ اس نے دانت نکوستے ہوے کہا جس پر بڑھیا بھی زور زور سے ہنسنے لگی یہ بوڑھا بھی دیکھنے میں کسی ڈریکولا جیسا ہی تھا مگر جب تمودا اس ہیبت ناک ماحول سے نکلنے ہی والا تھا تبھی اس نے ان دونو کے پیچھے اپنی زندگی کی سب سے حسین شکل ایک دیوی ایک بیحد خوبصورت لڑکی کو دیکھا جو جھونپڑ ے کے وسط میں کھڑی تھی مگر اس مڈ بھیڑ میں تمودا کسی معمول کی طرح نیند میں چلتا بے اختیار اس لڑکی کو دیکھتا اندر داخل ہو گیا اور بوڑھے نے جلدی سے لکڑی کا دروازہ بند کر دیا ۔ قریب ہی کسی انجان پرندے کی آواز زور زور سے گوبجنے لگی برف باری تیز ہو چکی تھی اور گرین ولو کا درخت اچانک ہلنے لگا جیسے ہولے ہولے رقص کر رہا ہو۔۔۔اب صورتحال کچھ یوں تھی وہ عمل تنویم کی طرح ایسے شخص کی مانند ہو گیا جس پر ہپنا ٹزم ہو چکا ہو بس وہ اس کی خوبصورتی میں محو سا ہو گیا تھا ۔۔بوڑھا اور بڑھیا مسکرا کر ایک دوسرے کو معنی خیز نظروں سے دیکھ رہے تھے جیسے وہ تمودا کی حالت کو سمجھ رھے ہوں *یہ ولو ہے گرین ولو *بوڑھا پراسرار لہجے میں بولا * میری اکلوتی بیٹی * پھر وہ ولو کی طرف متوجہ ہوا *ولو معزز سمورائی کے لئے کھانا لگاؤ * بوڑھے کی بات سن کر تمودا بھی اچانک ہوش میں آیا اور اس نے سر ہلا دیا اگرچہ اس کو لڑکی کے نام کی سمجھ نہ آ رہی تھی کہ ولو تو درخت کو کہتے ہیں اور اس قدر خوفناک ماں باپ کی اتنی حسین بیٹی ۔۔۔بات اس کے حلق سے نا اتر رہی تھی مگر شاید بھوک اور شاید بانس جلنے کی حرارت کی وجہہ سے جو اندر جل رہا تھا اور اسے آسودگی مل رہی تھی تو وہ چپ رہا ۔۔۔ لڑکی کا جسم بھرا بھرا نرم و گداز تھا اگرچہ وہ عام سا لباس پہنے تھی مگر کسی ملكہ سے کم نہ لگ رہی تھی اس کا حسن جادوئی سا لگ رہا تھا سرخ لب صراحی دار گردن ریشمی سنہری زلفیں اور داہنے گال پر تل اس کی خوبصورتی کو بڑھا رہے تھے ۔۔اس کی رنگت شہد کی سی تھی ، تمودا نے اپنے سوکھے لبوں پر زبان پھیری تبھی اس لڑکی نے اسے چاول کی شراب لکڑی کے گلاس میں ڈال کر پیش کی ۔۔۔جب اس نے ولو کو اپنے اس قدر قریب دیکھا تو وہ اس کے حسن سے بوکھلا کر مبہوت سا ہو گیا ۔۔۔ * یہ۔۔" وہ اتنا ہی کہ سکا ۔۔۔*بس اور شراب نہیں چاہیے* اس نے ولو کو دیکھتے بمشکل کہا وہ دل ہی دل میں ایک فیصلہ کر چکاتھا وہ یہ عزم کر چکا تھا کہ وہ اس لڑکی کو اپنی بیوی بنائے گا یہ طے کر نے میں اسے شاید چند مختصر لمحات لگے ...کھانا بیحد سادہ تھا اس نے کھانے کے بعد اپنی دل کی بات ولو کے ماں باپ سے کر دی وہ بری طرح چونکے - وہ دونوں جیسے سوچ میں پڑ گئے - بوڑھے نے کچھ دیر بعد کی خاموشی کے بعد کسی حد تک پرسکون انداز میں اسے کہا کہ وہ لوگ غریب ہیں اور تمودا کے برابر نہیں۔ آخر تمودا لارڈ آف ناٹو کا معزز سمورائ جو تھا- یہ جوڑ ٹھیک نہیں تھا ..'پھر وہ مزید بولا کہ ولو کو آپ بڑے لوگوں کے آداب کا بھی نہیں پتا ' بوڑھا اب سانس لینے کو رکا، اور اپنی جگہ سے کھڑا ہو کر ہاتھ باندھ کر دھیرے سے بولا *اے معزز مہمان ! ایسا ہونا نہ ممکن ہے * اس پر تمودا تیزی سے بولا ، * مگر مجھے اس سے محبت ہو چکی ہے* تمودا نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بلا خوف دل کی بات کہ دی۔ اس دوران ولو خاموشی سے عالم محویت میں اسے دیکھے جا رہی تھی اور وہ اس کی حسین جھیل آنکھوں میں ڈوبتا چلا جا رہا تھا - تبھی اسے لگا جیسے کوئی چیز دھیرے سے جھونپڑ ی میں بلند ہوئی، سفید اور سبز سا کوئی غبار تھا اورپھر سکوت چھا گیا- بڑھیا جو خاموش تھی، اس نے بھی یہی کہا *اے شہزادے یہ کسی کی بیوی نہیں بن سکتی مگر تم ابھی یہی رک جاؤ- برف باری بہت تیز ہے تو آج رات رک جاؤ کل چلے جانا میرے شہزادے* بوڑ ھا جو کافی دیر سے عالم استغراق میں تھا، پھر سے بیدار ہوا اور فیصلہ کن لہجے میں بولا *ہماری خوش نصیبی کہ آپ نے ولو کو چنا،شادی مناسب نہیں ہے تو اسے ایک خادمہ بنا لو، یہ یہاں تمہارا انتظار کرے گی *... تمودا کا دل یہ سن کر مسرت سے اچھلنے لگا اسے اس حسین قربت سے نشہ سا ہونے لگا *بلکل میں کام نپٹا کر ایسی ہی برفباری میں آ کر ولو کو لے جاؤں گا * صبح جب وہ وہاں سے روانہ ہونے لگا تو ولو اس کے پیچھے آنے لگی وہ جانتا تھا اگر اسے لارڈ آف کیٹو کے پاس لے گیا تو وہ اسے چھین لے گا اور اب چھوڑ کر جانے کا اس کا دل نہیں کر رہا تھا اس کے پاؤں بھاری سے ہو رہے تھے وہ آہستہ آہستہ گھوڑے تک پہنچا ولو کے ماں باپ کو وہ جھونپڑے میں رخصت کرآیا تھا- مگر ولو اس کے پیچھے پیچھے ہی آ رہی تھی سو اس سے صبر نہ ہوا، وہ بھی رک کر ولو کو دیکھنے لگا اور پھر لارڈ آف کیٹو اور لارڈ آف ناٹو سب بھولنے لگا اسے محسوس ہوا وہ کہیں نہیں جا سکے گا اس نے بے اختیار ہو کر حسین ولو کی جانب ایک والہانہ انداز میں ہوائی بوسہ پھینکا وہ گھوڑے سے واپس اترا اور چلا کر کہا " میں تم سے محبت کرتا ہوں " اس کی آواز جوش جذبات سے کانپ رہی تھی " ادھر آ جاؤ میرے گلے لگ جاؤ ولو " اس نے اسے بازو میں بھر لیا - لارڈ آف کیٹو کا پیغام اس نے نیچے پھینک دیاتھا - ولو کو لے کر وہ منزل کی مخالف سمت نکل گیا محبت کی جیت ہوئی تھی فرض ہار گیا تھا - ان دونوں نے اسی دن شادی کر لی تھی - تمودا اور ولو مدتوں چھپے رہے - ان کی شادی کے بعد ایک ایک پل بیحد حسین اور خوشگوار تھا - ولو نے اسے اتنی خوشیاں دیں جن کا کبھی اس نے تصور بھی نا کیا تھا - اسے یہ سب ایک خواب سےلگتا تھا - بی نامی جگہ پر اسے رہتے کچھ عرصہ ہو گیا مگر ایک دن اچانک ولو درد سے چیخی اور اس کے سامنے گر کر تڑپنے لگی اس کی باچھوں سے خون بہ رہا تھا ٠ تمودہ بھونچکا ہو گیا مگے اس نے ب حواس پر قابو پاتے ولو کو بجلی کی تیزی سے تھاما تو ولو کرب سے بولی " میں آج مر رہی ہوں " تمودا نے کہا " کیا ہوا تمھیں ؟" میں ابھی جڑ ی بوٹی لاتا ہوں- ولو تم ٹھیک ہو جاؤ گی میری جان ایسی باتیں نہ کرو -" نہیں " ولو نے ہاتھ اٹھا کر سختی سے کہا " میری بات غور سے سنو - تم نے مجھے بہت خوشی دی ہے میں اس محبت میں تمہاری قرضدار ہوں اور تمودا ! یہ سچ ہے کہ میں نے تمھیں دھوکہ دیا- میں تمہاری مجرم ہوں کہ تمہیں سچ نہ بتا سکی ...میں انسان نہیں ہوں بلکہ ولو کا جو درخت تم نے اس دن دیکھا تھا اس میں میری روح قید ہہے اور آج ابھی کسی نے وہ کاٹ دیا ہے مجہے معاف کر دینا " یہ کہ کر اس کی جان نکل گیی اور تمودا بس اس کی بے جان لاش کو تھامے بیٹھا تھا تبھی اس لاش کا رنگ بدلنا شروع ہوا اور پھر وہ ولو کا درخت بننے لگی کچھ دیر بعد وہاں ولو کی لاش کی بجے ولو کے درخت کی ایک کٹی ہوئی شا خ پڑی تھی - تمودا ابھی بھی سکتے میں تھا وہ بوجھل قدموں سے اٹھا اور چل دیا آج تک پھر اس کا پتا نہ چل سکا " یہ کہ کر اس پرسرار پجاری نے لمبی سانس لیتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں - یہ پجاری اسی علاقےمیں ولو کے درخت کے آ س پاس عرصے سے مکین تھا - " اور اس لارڈ ہاف کیٹو کے پیغام کا کیا ہوا" قافلے نے جو بوجہ برفباری یہاں آ کر رکا تھا اس قافلے کے سردار نے پجاری سے پوچھا -٠ " وہ پیغام پیغام ہی رہا - ولو کا پیغام! " پجاری کی سفید داڑھی تھرتھرائی اور وہ آنکھیں بند کر کے پھر مراقبے میں چلا گیا - قافلے والے ابھی تک ورطہ حیرت میں تھے آخر یہ سب کیا سنا تھا اور یہ پجاری سب کیسے جانتا تھا - اگلی صبح پجاری کی لاش اسی ولو کے درخت کے پاس ملی کہ جہاں قافلے والوں نے اسے ایک شب پہلے دیکھا تھا - اس کے ہاتھ میں ایک مشکی رنگ کا چمڑے کا تھیلا تھا جس پر لارڈ آف کیٹو لکھا تھا

تحریر : کاشف علی عبّاس 

(جاپانی ادب سے ماخوز )


0
81