اک دل کی فقط آشنائی کو ترسے
کبھی ملن کبھی جدائی کو ترسے
تم مل کر بھی نہیں ملتے ہو اب
اور ہم تو اس لب کشائی کو ترسے
کاشف برا سہی نہ کر بھروسہ مگر
یہ کیا کہ اسی ظالم کی گواہی کو ترسے
عشق میں کیسی خودی کیسی انا بچی یارو
قتل ہو کر بھی قاتل آگاہی کو ترسے
شوگر ہو چکی مگر کاشف نمکین لہجہ تھا
وہ دوائی کو ترسے ہم مٹھائی کو ترسے

0
117