اردو ادب تو وڑ گیا
غالب اگر زندہ ہو کر مال روڈ لاہور پہ آج کل کی شاعری یا ناول کی ردی نما کتابیں دیکھ لیں تو پڑھتے ساتھ ہی فی الفور پھر مر نے کو تمنا کریں ۔اور دو گز زمین بھی برما میں واگزار کر ا لیں ۔کیوں کہ اردو ادب تو مکمل وڑ گیا ہے ۔تماشا یہ ہے کہ ۔۔۔
شاعری : میر ، غالب ، اقبال سے فیض تک کے شاندار دور کے بعد ہم توُ تران چھو چھک قسم کی شاعری پر براجمان ہیں ۔ شعر کہا نہیں جاتا بلکہ تھوکا جاتا ہے ۔شاعری چھچھو ری بن چکی ہے ۔ثبوت چا ہیے ! کسی بھی موجودہ شاعر کو پڑھ لو ۔99% لغو لکھتے ہیں ۔
ڈرامہ : آغا حشر کاشمیری اور امتیاز تاج کا سنہری ڈرامہ اب جگتوں اور بوسیدہ پھکڑ بازی بن کر سٹیج ڈراموں میں مجروں کے بیچ گندے بھنگڑے ڈال رہا ہے ۔ رہا ٹی وی کا ڈرامہ تو وہ محض ایک کمرشل پرواز ہے جس میں ادب کا کوئی محل ہی نہیں بنتا ۔افسوس !
افسانہ : منٹو ، کرشن چندر ، غلام عبّاس ، عصمت چغتائی کے کمال افسانوں کے بعد موجودہ افسانہ بانجھ ہو چکا ہے ۔مکمل بانجھ جس سے اب کوئی تخلیق ممکن نہیں ۔بلکہ اس زمرے میں یہ کہنا مناسب ہے کہ افسانہ تو گھسی پٹی سو لفظوں کی کہانی میں بدل چکا ہے ۔شرمناک !
ناول : جو حال ناول کا ہے دل چاہتا ہے کہ پھر سے آگ کا دریا میں چھلانگ لگا دوں جہاں اداس نسلیں جل رہی ہوں اور لوگ راجہ گدھ بن کر پیار کا پہلا شہر کا خواب دیکھ سکیں ۔ناول کی تباہی تو اردو ادب کا عالمگیر سانحہ ہے ۔رسوا کی امرا و جان ادا کا وہ شعر کہ آوارگی میں ہم نے زمانے کی سیر کی اب تباہی میں ہم نے نسلیں پار کی بن چکا ہے ۔یعنی اردو ادب کا سنجیدہ قاری حیران ہے کہ چہ خوب ! یہ جو آج کل لکھا جا رہا ہے کیا یہ ناول ہے ؟ راجا گدھ از بانو قدسیہ اور تار ڑ دی گریٹ کے ناولز کے علاوہ موجودہ ادب خالی داماں ہے ۔موجودہ ناول نگار درحقیقت ڈائجسٹ رائٹرز کا اردو ادب پہ ٹد ی دل حملہ جیسا ہے ۔جس نے ادب کو تہس نہس کر دیا ہے ۔سورج جب تک مغرب سے نا نکلے گا ان لوگوں کو ادب کے میلوں پاس بھی شمار نہ کیا جائے گا ۔ان کمرشل ناول چند سالوں کی مار ہیں ۔جبکہ اصل اردو حقیقی ناول صدیوں تک یاد رکھا جاتا ہے ۔ان کا انداز بیان یا کہانی یا محض سوچ دیکھ کر ہی سر پیٹنے اور جگر تھام لیتے ہیں ہم سنجیدہ قاری !
نتیجہ : اردو ادب تو وڑ گیا ۔ایسا وڑا ایسا وڑا کہ بہت وقت لگے گا اس کو بحال ہونے میں ۔۔۔تب تک جیۓ جا اور ان نا ہنںجاروں کو پیے جا ۔۔۔
معلومات