دل اس طرف کھنچتا ہے کہ مجبوری ہے |
لاکھ روکوں پر بہکتا ہےکہ مجبوری ہے |
جانتا ہوں کہ اس سے صلح نہیں ممکن |
کمبخت پڑا پکارتا ہے کہ مجبوری ہے |
وہ چیز ہی ایسی سراپا سرتاپا اشتیاق |
دل کہاں رکتا ہے کہ مجبوری ہے |
آزاد منش ہوں میں کسی کا غلام نہیں |
نفس غلامی چاہتا ہے کہ مجبوری ہے |
بہت ہے خودی و عزت نفس و انا |
مگر یہ تو مچلتا ہے کہ مجبوری ہے |
کاشف بے شرمی میں عشق کیا ہے |
اسی کا نام جپتا ہے کہ مجبوری ہے |
شاعر : کاشف علی عبّاس |
معلومات