باد جاں آج صحرا ہوتا رہا
زخم میرا کہ گہرا ہوتا رہا
بات میری لبوں پہ رکتی رہی
گرد تیرے کہ پہرا ہوتا رہا
ظلمتِ شب تو ساری باقی ہے
شمس دل کیوں سنہرا ہوتا رہا
شخص وہ اک صحیح ہے جانے
حیف قسمت پہ دُہرا ہوتا رہا
چل پڑے ہو، پہنچ کہ تم نہ سکے
مرضی کا روز ٹھہرا ہوتا رہا
ملنا ہو یا بچھڑنا ہو کاشف
عاشقی کا دسہرا ہوتا رہا
-----------------------
بحر : خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
وزن : فاعِلاتن مفاعِلن فِعْلن
شاعر: کاشف علی عبّاس
© 2023 جملہ حقوق بحق شاعر محفوظ©

0
62