کہ دیا اک فقیر ،
علم بس کر دے یار
نعرہ قلندر کا
کتاب سے کیا سروکار
موسیٰ عالم شریعت،
خضر پر سرار
کہ اٹھے خضر،
راہ لیجیے سرکار
یہ عقل سے پرے ،
ہے خدائی اسرار
مانو کہ یہ کتاب عشق
کا باب تابدار
کبھی شمس کو جلال ،
اور رومی انکار
پوچھا، کتب کو آتش ملی،
عجب کاروبار؟
شمس بولے، جس کی
خبر نہ ہے اخبار
کر لے مذہب عشق
اختیار، عشق کار
کہ عقل سوچے ،
اور عشق بے قرار
عجب لوگ ہیں،
لفظ عشق پر تکرار
کاشف، یہ عشق
ہی وجود کن اظہار
عشق ہی کعبہ،
عشق ہی نبی دربار
عشق ہی خالق،
اور عشق ہی آشکار
مرگ ،تیرا بھی عشق،
یہی انجام کار
زندہ ہے تو
زندوں میں روح اذکار
یہی عشق ہے کربلا
، عشق حیدر کرار
نفس اندر جھانکا،
ملا عشق کا دیار
کاشف خستہ جان
کو عشق سے پیار

0
58