ستم گر تیرے انداز، خفا ہےبھلا کب تک
مگر کیوں دلِ ناداں تجھے چاہے ہے اب تک
تیرے کوچے میں ہر روز بھٹکتا ہوں مگر
تیرے در کی طرف آنکھ بھی اٹھائے ہے اب تک
تیری زلفوں کی صورت میں اندھیرا ہے مگر
دلِ دیوانہ تیرا ہی اجالا پائے ہے اب تک
تیری باتوں میں زہر و شر کا ہے امتزاج
مگر یہ دلِ ناداں تجھے چاہے ہے اب تک
تیری یادوں کے طوفاں میں الجھا ہے مگر
کاشف کو کوئی زور سے کھینچے ہے اب تک

0
12